اسکو ل کی چھٹیاں اور وین کی اجرت

اسکو ل کی چھٹیاں اور وین کی اجرت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بچے اسکول میں پڑھتے ہیں تو وہاں جو گاڑی والے ہیں جن کے ساتھ میرے بچے اسکول جاتے ہیں وہ ہم سے گرمی کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو اس کا بھی کرایہ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ درست ہے۔ کیا واقعی ان کا یہ گرمی کی چھٹیوں کا پیسہ لینا ہم سے جائز ہے ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

ہمارے یہاں یہ رائج ہے کہ وین والے چھٹیوں کی پیسے لیتے ہیں جیسے اسکول والے اور استاتذہ گرمیوں کی چھٹیوں کی ماہانہ فیس لیتے ہیں۔ شرعی طور پر اس میں حرج نہیں کہ جو چیز رائج ہو وہ شرعا درست ہوتی ہے۔دراصل جس طرح اسکول والے بچوں سے چھٹیوں کی فیس لیتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہمارے اخراجات اسی طرح ہوتے رہتے ہیں جیسے پہلے ہوتے تھے یعنی اساتذہ کی سیلریاں،بلڈنگ کے کرائے و بلز وغیرہ۔ڈرائیور لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی سواری بچوں کے لیے خاص کی ہوئی ہے اور کام ہم نہیں کرتے ۔

بہتر یہ ہے کہ اسکول وین والے شروع سے ہی کہہ دیں کہ گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس لی جائے گی یا والدین صراحت کردیں کہ چھٹیوں کی فیس نہیں دی جائے گی تو یہ درست ہے۔

عقود رسم المفتی میں ہے

”والعرف فی الشرع لہ اعتبار لذا علیہ الحکم قد یدار قال فی المستصفیٰ العرف والعادۃ ما استقر فی النفوس من جھۃ العقول وتلقتہ الطبائع السلیمۃ بالقبول انتھی “

ترجمہ:شرع میں عرف کا اعتبار ہے اسی وجہ سے حکم اس عرف پر لگتا ہے مستصفی میں فرمایا عرف اور عادت وہ چیز ہے جو عقلوں کی جانب سے دلوں میں قرار پکڑتی ہے اور فطرت سلیمہ ہاتھوں ہاتھ ان کو قبول کرتی ہے ۔( عقود رسم مفتی ، صفحہ 75 ،العرف وحجیتہ وشرط اعتبارہ ،مکتبہ بشری)

الأشباء والنظائر میں ہے

” السادسۃ العادۃ المحکمۃ ۔۔۔۔واعلم ان العادۃ العرف یرجع الیہ فی مسائل کثیرۃ حتی جعلوا ذلک اصلاً “

ترجمہ:چھٹی چیز عادت محکمہ ہے جان لیجئے عرف کی طرف کثیر مسائل میں رجوع کیا جاتا ہے یہاں تک کہ علماء نے اسے اصل قرار دیا ہے ۔( الأشباء والنظائر، جلد1،ص 79، دارالکتب العلمیہ ،بیروت )

محیط برھانی میں ہے

” قال الفقیہ أبواللیث رحمہ اللہ ومن یأخذ الأجرۃ من طلبۃ العلم فی یوم لا درس فیہ أرجو أن یکون جائزاً “

ترجمہ فقیہ ابواللیث علیہ الرحمہ نے فرمایا جو چھٹی والے دن کی فیس بچوں سے لیتا ہے میں امید کرتا ہوں کہ یہ جائز ہو ۔ ( المحیط البرھانی ،جلد 6 ،کتاب الوقف ،الفصل الثامن عشر فی الرجل یقف علی جماعۃ الخ ،ص 190 ،دارالکتب العلمیہ ،بیروت )

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی الله علیہ وسلم

ابوبکر نیلمی

01 مارچ 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں