گروی رکھوائے ہوئے مال پر زکاۃ

گروی رکھوائے ہوئے مال پر زکاۃ

سوال:مفتی صاحب، اگر کسی کے پاس دو یا اڑھائی تولہ زیور ہے، اس زیور کو بینک میں گروی رکھوانا پڑھ گیا ہو ، قرض لینے کے لیے، کیا اس سونے پر بھی زکوٰۃ ہوگی؟

(سائل:محمد علی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

گروی رکھے ہوئے مال پرزکوۃ نہ گروی نہ رکھنے والے پر نہ اُ س پر جسکے پاس مال گروی رکھوایا، اگرچہ وہ مال قرض سے زیادہ ہو،اور وہ مال وآپس لینے کے بعد بھی اس مال پر گزشتہ سالوں کی زکاۃ لازم نہیں ،ہاں اسکے بعد سال پورا ہونے پر زکوۃ ہو گی،نیز یہ بھی یاد رہے کہ بینک سے سودی پر قرض لینا ہر گز جائز نہیں ،لہذا سودی لین دین سے بچنا لازم ہے اور اگر کر لیا تو فوری اس عقد کو ختم کرنا اور اس پر سچی توبہ لازم ہے۔

در مختار مع ردالمحتار میں ہے: (فلا زكاة على مكاتب) لعدم الملك التام، ولا في كسب مأذون، ولا في مرهون بعد قبضه، ولا فيما اشتراه لتجارة قبل قبضه….. (قوله: ولا في مرهون) أي لا على المرتهن لعدم ملك الرقبة ولا على الراهن لعدم اليد، وإذا استرده الراهن لا يزكي عن السنين الماضية، وهو معنى قول الشارح بعد قبضه، ويدل عليه قول البحر ومن موانع الوجوب الرهن ح وظاهره ولو كان الرهن أزيد من الدين ط…… (قوله قبل قبضه) أما بعده فيزكيه عما مضى كما فهمه في البحر من عبارة المحيط.

[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،كتاب الزكاة ،٢٦٣/٢]

بہارشریعت میں ہے : شے مرہُون کی زکاۃ نہ مرتہن پر ہے، نہ راہن پر، مرتہن تو مالک ہی نہیں اور راہن کی ملک تام نہیں کہ اس کے قبضہ میں نہیں اور بعد رہن چھڑانے کے بھی ان برسوں کی زکاۃ واجب نہیں ۔ (بہارشریعت ، زکاۃ کا بیان، جلد 1 ،حصہ 5 ، مکتبۃالمدینہ)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ

ابوالحسن محمد حق نوازمدنی

14 شوال الکرم 1445ء 23 اپریل 2024ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں