نکاح میں والد کی جگہ پالنے والے کا نام لکھنا،بولنا

نکاح میں والد کی جگہ پالنے والے کا نام لکھنا،بولنا

سوال:مفتی صاحب ، ایک لڑکی لے پالک تھی، اصل والد کے بجائے اس کے پالنے والے کے نام کو بطور والد کر کے اس کا نکاح کیا،کیا اس کا نکاح ہوگا یا نہیں، وہ لڑکی جس کے پاس ہے اس کے نام سے بطور والد مشہور ہے؟

(سائل :محمد اسلم لاشاری)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

نکاح میں اصل مقصود ، عاقدین یعنی مرد و عورت کی تعیین ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں نکاح ہو جائے گا ، البتہ یہ یادرہے کہ بچہ ہویابچی اس کو ،اس کے باپ کے علاوہ کی طرف منسوب کرنا، ناجائزوحرام ہے ،لہٰذانکاح نامہ ہو یا دیگر دستاویزات ،ولدیت میں بچے کے حقیقی والدکاہی نام لکھنا لازم ہے ،البتہ بطورسرپرست ، پالنے والایاگودلینے والے کانام لکھ سکتے ہیں۔

قرآن پاک میں ہے : اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ. ترجمہ: انہیں ان کے حقیقی باپ ہی کا کہہ کر پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے۔ [القرآن،سورۃ الاحزاب،آیت نمبر:5]

فتاوی شامی میں ہے : إن ذكر الاسم غير شرط، بل المراد الاسم أو ما يعينها مما يقوم مقامه. یعنی نکاح میں نام کا ذکر شرط نہیں بلکہ مراد نام یا نام کے قائم مقام جو بھی ( لقب، کنیت وغیرہ) عورت کو معین کر دے کافی ہے۔

[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) کتاب النکاح، 3/22]

فتاوی رضویہ شریف میں سوال ہواکہ : ہندہ کی صحیح ولدیت زیدہے مگربوقت نکاح بکرقائم کرکے ایجاب وقبول ہواتوایسانکاح درست ہوایانہیں ؟توجوابا ارشاد فرمایا : اگربکرنے اسے پرورش یا متبنی کیا تھا اور وہ عرف میں ہندہ بنت بکر کہی جاتی ہے اور اس کے کہنے سے اس کی طرف ذہن جاتا ہے تونکاح ہوگیا۔ (فتاوی رضویہ، جلد11،صفحہ250،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ

ابوالحسن محمد حق نوازمدنی

21 ذوالحجۃ الحرام 1445ء 28 جون 2024ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں