نماز میں السلام علیکم کی جگہ سلام علیکم کہنا
سوال:مفتی صاحب،امام صاحب نے نماز کے آخر میں السلام علیکم کی جگہ سلام عليكم کہا جبکہ مقتدیوں نے درست کہا، کیا نماز ہو جائے گی؟
(سائل:آصف اقبال)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
نماز میں سلام پھیرتے وقت مکمل السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنا سنت مبارکہ ہے، اور الف لام کے بغیر صرف سلام عليكم کہنا خلاف سنت و مکروہ ہے، لہذا سلام پھیرتے وقت سنت کے مطابق الفاظ کہنے چاہیں،البتہ صرف سلام کہنے سے نماز ہو جائے گی،دوبارہ پڑھنے یا سجدہ سہو کی حاجت نہیں۔
مراقی الفلاح شرح نورالایضاح میں ہے : فإن نقص فقال: السلام عليكم أو سلام عليكم أساء بتركه السنة وصح فرضه. یعنی اگر کسی نے سلام کے الفاظ میں کمی کی اور السلام علیکم کہا یا سلام علیکم کہا تو اُس نے سنت ترک کر کے بُرا کیا ،اور نماز صحیح ہو گئی۔ [حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، کتاب الصلاۃ ، باب بیان سننھا، صفحة ٢٧٤]
الجوہرۃ النیرۃ میں ہے : وإن قال السلام ولم يقل عليكم لم يصر آتيا بالسنة وإن قال سلام عليكم أو عليكم السلام لم يكن آتيا بها ويكره ذلك . [الحدادي، الجوهرة النيرة على مختصر القدوري،کتاب الصلاۃ ،باب صفۃ الصلاۃ ،، ٥٦/١]
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ
ابوالحسن محمد حق نوازمدنی
14 شوال الکرم 1445ء 23 اپریل 2024ھ