نصف فصل کے بدلے کھیت کی حفاظت کے لیے مزدور رکھنا

نصف فصل کے بدلے کھیت کی حفاظت کے لیے مزدور رکھنا

سوال:مفتی صاحب، زمین میری ہے، سارا خرچہ میں کرتا ہوں، دیکھ بھال کے لیے ایک غیر مسلم ہے، اب جتنی بھی فصل ہو اس کا خرچہ نکال کر ہم آدھا آدھا کر لیتے ہے اب اس فصل کا عشر میرے حصے میں آنے والی آدھی فصل کا ادا کروں گا یا پوری فصل کا؟

(سائل:محسن الطاف قائم خانی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

پوچھی گئی صورت میں آپ کا اس انداز میں اجارہ کرنا ہی شرعا درست نہیں، کیونکہ یہاں اجرت ہی مجہول ہے، معلوم نہیں کہ کل کتنی فصل حاصل ہو گی جسکے نصف کو اجرت قرار دیا جائے جبکہ اجارہ میں بوقت عقد اجرت کا معلوم و معین ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ اجارہ فاسد ہو جاتا ہے، نیز اگر یہاں اجرت معلوم ہو تب بھی یہ صورت جائز نہیں کیونکہ یہاں اجیر کے اپنے عمل یعنی حفاظت سے حاصل شدہ نفع کو اجرت مقرر کیا جا رہا ہے جو قفیز طحان کی صورت ہے اور اس سے حدیث پاک میں منع کیا گیا ہے، لہذا یہ اجارہ فاسد ہے اور اس صورت میں کل فصل آپکی ہی ہو گی، کل پیداوار کا عشر بھی آپ نے ہی ادا کرنا ہے، دیکھ بال کرنے والے مزدور کو اجرت مثل یعنی وہاں اتنے کام کی جتنی مزدوری بنتی ہے وہ ملے گی۔

المبسوط میں ہے : والاستئجار بأجرة مجهولة بمنزلة بيع بثمن مجهول….ثم البيع بثمن مجهول يكون فاسدا، فكذلك الاستئجار بأجرة مجهولة. یعنی مجہول اجرت پر اجارہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے مجہول ثمن پر کوئی چیز بیچنا…. تو جیسے مجہول ثمن پر خرید و فروخت فاسد ہے ایسے ہی مجہول اجرت پر اجارہ بھی فاسد ہے۔ [المبسوط للسرخسي،،کتاب المزارعۃ، ١٨/٢٣]

بدائع الصنائع میں ہے :إذا استأجر رجلا ليطحن له قفيزا من حنطة بربع من دقيقها أو ليعصر له قفيزا من سمسم بجزء معلوم من دهنه أنه لا يجوز؛ لأن الأجير ينتفع بعمله من الطحن والعصر فيكون عاملا لنفسه وقد روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن قفيز الطحان. [الكاساني، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،كتاب الإجارة،١٩٢/٤]

بہار شریعت میں ہے: اجارہ پر کام کرایا گیااور یہ قرار پایا کہ اسی میں سے اتنا تم اُجرت میں لے لینا یہ اجارہ فاسد ہے۔ (بہار شریعت،اجارہ کا بیان)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ

ابوالحسن محمد حق نوازمدنی

08 شوال الکرم 1445ء 17 اپریل 2024ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں