موسی علیہ السلام کی طرف سےموت کے
فرشتے پرغصہ کرنے کی وجہ، حدیث پاک کی تشریح
سوال:مفتی صاحب، بہت سارے علماء سے سنا ہے کہ وفات کے وقت موسی علیہ السلام نے طمانچہ مار کے ملک الموت علیہ السلام کی آنکھ نکال دی تھی ،کیا ایسا کسی حدیث میں موجود ہے،اوراسکی کیا وضاحت ہے؟
(سائل:سید جمیل حسین شاہ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
بُخاری ومسلم شریف اور دیگر کُتب حدیث میں یہ حدیث پاک موجود ہے،اس حدیث پاک کی شرح میں شارحین فرماتے ہیں:
♦ موسی علیہ السلام نے ابتداء عزرائیل علیہ السلام کو پہچانا نہیں تھا ورنہ آپ علیہ السلام ایسا نہ کرتے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے تو ابتداء انہوں نے نہ پہچانا اور انکو کھانے کے لیے گوشت پیش کیا ورنہ آپ پہچان لیتے تو کبھی نہ پیش فرماتے، یونہی اگر بی بی مریم ابتداء فرشتے کو پہچان لیتی تو کبھی فرشتے سے پناہ نہ مانگتی اورپھر لوط علیہ السلام بھی ابتداء پہچان لیتے تو کبھی بھی فرشتوں کے بارے میں، اپنی قوم کے برے عمل کا خوف نہ کرتے تو گویا موسی علیہ السلام کا معاملہ بھی یوں ہی تھا ورنہ آپ علیہ السلام نہ مارتے۔[ عمدة القاري شرح صحيح البخاري ]
♦ اسکی تشریح میں ایک بہترین قول یہ بھی ہے کہ ھذا الغضب للہ فلم یکن مذموما یعنی موسی علیہ السلام کا یہ غصہ فرمانا اللہ کے لیے تھا جو قابلِ مذمت نہیں کیونکہ عزرائیل علیہ السلام بشری صورت میں تھے ،آپ علیہ السلام نے تو کسی بشرکو روح قبض کرنے کا دعوی کرنے پر اسکو اس دعوے میں جھوٹاجان کر مارا تو یہ غضب للہ کی صورت ہے نہ کہ فرشتے کی توہین جیسا کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے لیے غصہ کرتے ہوئے، اللہ کے نبی اور اپنے بڑے بھائی کو غصے میں سر اور داڑھی سے پکڑ کر کھینچا حالانکہ حدیث کے مطابق بڑا بھائی تو والد کی طرح ہوتا ہے۔
♦ بعض شارحین نے فرمایا کہ موسی علیہ السلام کو اللہ پاک کی طرف سے طمانچہ مارنے کی اجازت تھی اور اس میں عزرائیل علیہ السلام کا امتحان تھا اور انہیں اس پر صبر کرنے کا حکم تھا جیسا کہ موسی علیہ السلام کو اس پر صبر کا حکم دیا گیا تھا جو حضرت حضر علیہ السلام نے کیا، اور یہ کہ اللہ پاک نے ملک الموت علیہ السلام کو روح قبض کرنے کے لیے بھیجا ہی نہیں تھا بلکہ امتحان و آزمائش کے لیے بھیجا تھا ورنہ ملک الموت علیہ السلام ضرور آپکی روح قبض کرتے کہ ملائکہ رب کے حکم پر نافرمانی نہیں کرتے۔[الملا على القاري، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح]
♦ بعض علماء نے فرمایا کے موسی علیہ السلام نے اس لیے طمانچہ مارا کہ ملک الموت علیہ السلام انکے پاس بغیر اختیار دیے روح قبض کرنے کے لیے آ گئے تھے حالانکہ یہ بات ثابت ہے کہ کسی نبی کو اختیار دیے بغیر روح نہیں قبض کی جاتی، اسی لیے جب ملک الموت علیہ السلام نے دوسری مرتبہ آپ کو اختیار دیا تو موسی علیہ السلام نے موت کو قبول کر لیا۔ [ابن حجر العسقلاني، فتح الباري لابن حجر، ٤٤٢/٦]
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ
ابوالحسن محمد حق نوازمدنی
15 شوال الکرم 1445ء 24 اپریل 2024ھ