قربانی کرنے والے کا عید سے قبل ناخن،بال کاٹنا
سوال:مفتی صاحب ، اگر بڑے ناخن اور بالوں سے الجھن ہو رہی ہو تو قربانی کرنے والا عید سے پہلے ہی کٹوا سکتا ہے؟
(سائل :عبداللہ حسین لودھی)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
ذی الحج کے ابتدائی دنوں میں قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کاٹنے کا جو حکم ہے وہ استحبابی ہے فرض یا واجب نہیں یعنی نہ کاٹنا بہتر ہے اور اگر کسی نے کاٹ لیے تو شرعاً وہ گنہگار نہیں لہذا آپ الجھن کے سبب بال کاٹ سکتے ہیں، اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں نیز یہ بھی یاد رہے کہ اگر یہ الجھن اسلیے ہو رہی ہے کہ ناخن، بغل اور ناف کے نیچے والے بالوں کو کاٹے ہوئے چالیس دن ہو چکے ہیں تو اب فوراً کاٹنا لازم ہے، اس صورت میں قربانی کا انتظار کرنے کی اجازت نہیں، ورنہ گنہگار ہوں گے۔
مسلم شریف میں ہے : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان له ذبح يذبحه فإذا أهل هلال ذي الحجة، فلا يأخذن من شعره، ولا من أظفاره شيئا حتى يضحي . یعنی جس نے قربانی کرنی ہو جب وہ ذی الحج کا چاند دیکھے تو قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ لے۔
[مسلم، صحيح مسلم، كتاب الأضاحي ،١٥٦٦/٣]
اس حدیث پاک کی شرح میں ملا علی قاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : وظاهر كلام شراح الحديث من الحنفية أنه يستحب عند أبي حنيفة فمعنى قوله: رخص. أن النهي للتنزيه فخلافه خلاف الأولى، ولا كراهة فيه .
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، كتاب الصلاة ، باب في الأضحية، ١٠٨١/٣]
فتاوی رضویہ میں ہے : یہ حکم صرف استحبابی ہے کرے تو بہترہے نہ کرے تو مضائقہ نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ سکتے ہیں نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے ۳۱ دن سے کسی عذر کے سبب خواہ بلا عذر ناخن تراشے ہوں نہ خط بنوایا ہو کہ چاند ذی الحجہ کا ہوگیاتو وہ اگر چہ قربانی کاارادہ رکھتا ہو اس مستحب پر عمل نہیں کرسکتا اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن وخط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہو جائے گا،اور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کے لئے گناہ نہیں کرسکتا۔ (فتاوی رضویہ ،ج 20 ،ص 353، رضا فاؤنڈیشن)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ
ابوالحسن محمد حق نوازمدنی
03 ذوالحجۃ الحرام 1445ء 10 جون 2024ھ