فلاں شخص کا کوئی دین و ایمان ہی نہیں،کہنا کیسا؟
سوال:مفتی صاحب، ایک شخص جو اپنی بات پر قائم نہیں رہتا اسکے بارے میں یہ کہنا کہ اسکا تو کوئی دین و ایمان ہی نہیں، کیسا؟
(سائل:محمد حسان)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
♦ کسی کے بارے میں یوں کہنا کہ فلاں کا کوئی دین و ایمان نہیں یا وہ بے ایمان ہے، اس جملے سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ دھوکہ باز، خائن اور فراڈیہ ہے یعنی وہ کامل مومن نہیں، اس سے اس شخص کو کافر کہنا مراد نہیں ہوتا، لہذا ایسا بولنے پر حکمِ کفر نہیں، البتہ اگر کسی ایسے شخص کو یوں بولا گیا جس میں مذکورہ عیب موجود نہیں تو بولنے والا تعزیر یعنی سزا کا مستحق ہے۔
♦ اور اگر ایسے شخص کو بولا گیا جس میں یہ عیب موجود ہیں جیسا کہ سوال میں بیان کیا گیا تو اب کہنے والے پر تعزیر نہیں کیونکہ اس شخص نے خود ہی اپنے آپ کو عیب دار بنایا ہوا ہے۔
السنن الكبرى ، مصنف ابن أبي شيبة ، شعب الإيمان وغیرہ میں حدیث پاک ہے : عن أنس، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له. یعنی امانت میں خیانت کرنے اور بدعہدی کرنے والے کا کوئی دین و ایمان نہیں۔ [البيهقي، أبو بكر، شعب الإيمان، باب الإيفاء بالعقود، ١٩٦/٦]
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : وقوله دينسز معناه الذي ليس له دين يتدين به وهو مرادف لزنديق ففي الفتح الزنديق الذي لا يتدين بدين وفيه التعزير أيضا . [العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية، باب الردة والتعزير، ٩٩/١]
بہار شریعت میں ہے : کسی کو بے ایمان کہا تو تعزیر ہوگی اگرچہ عرف عام میں یہ لفظ کافر کے معنے میں نہیں بلکہ خائن کے معنی میں ہے اور لفظ خائن میں تعزیر ہے۔ایک اور مقام پر ہے : کسی مسلمان کو فاسق، فاجر، خبیث، لوطی، سود خوار، شراب خوار، خائن، دیوث…. کہنے پر تعزیر کی جائے یعنی جبکہ وہ شخص ایسا نہ ہو جیسا اس کہا اور اگر واقع میں یہ عیوب اس میں پائے جاتے ہیں اور کسی نے کہا تو تعز یر نہیں کہ اس نے خود اپنے کو عیبی بنا رکھا ہے، اس کے کہنے سے اسے کیا عیب لگا۔ (بہارشریعت، تعزیر کا بیان، جلد 2،حصہ 9 ،مکتبۃالمدینہ)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ
ابوالحسن محمد حق نوازمدنی
16 شوال الکرم 1445ء 25 اپریل 2024ھ