صلاۃ التسبیح میں فاتحہ و سورت کے درمیان تسبیحات پڑھنا

صلاۃ التسبیح میں فاتحہ و سورت کے درمیان تسبیحات پڑھنا

سوال:مفتی صاحب، صلاۃ التسبيح کی جماعت میں سورۃ الفاتحہ اور سورت کے درمیان، تین دفعہ تسبیح پڑھ دی پھر یاد آنے پر سورت پڑھی، اور آخر میں سجدہ سہو بھی کر لیا، اب کیا اس طرح نماز ہو گئی یا لوٹانی پڑے گی؟

(سائل:مدیحہ رانا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں اور سنت ونفل کی ہر رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد کسی قسم کی تسبیح و ثناء پڑھنے کا محل نہیں کیونکہ یہاں فورا سورت ملانا واجب ہے ، اگر کسی نے یہاں بھولے سے تین مرتبہ تسبیحات پڑھیں تو واجب میں تاخیرکے سبب سجدہ سہو واجب ہو جائے گا، لہذا پوچھی گئی صورت میں سجدہ سہو ادا کرنے سے نماز ہو جائے گی، نماز لوٹانے کی حاجت نہیں۔

ولو تشهد في قيامه قبل قراءة الفاتحة فلا سهو عليه وبعدها يلزمه سجود السهو وهو الأصح؛ لأن بعد الفاتحة محل قراءة السورة فإذا تشهد فيه فقد أخر الواجب وقبلها محل الثناء، كذا في التبيين ولو تشهد في الأخريين لا يلزمه السهو. یعنی اگر کسی نے قیام میں سورۂ فاتحہ پڑھنےسے پہلے تشہد پڑھ لیا، تو اس پر سجدۂ سہو لازم نہ ہوگا اور اگر فاتحہ کے بعد پڑھا، تو سجدہ سہو لازم ہوگا اور یہ زیادہ صحیح ہے ،کیونکہ فاتحہ کے بعد محلِ قراءت ہے ، جب اس نے تشہد پڑھا، تو واجب کو موخر کردیا اور سورۂ فاتحہ سے پہلے محلِ ثنا ہے، ایسے ہی تبیین میں ہے، اور اگر آخری دو رکعتوں میں تشہد پڑھا تو سجدہ سہو لازم نہیں۔

[الفتاوى الهندية، کتاب الصلاۃ ، الباب الثانی عشر فی سجود السهو ،١٢٧/١]

البحرالرائق میں ہے : لو تشهد في قيامه بعد الفاتحة لزمه السجود وقبلها لا على الأصح لتأخير الواجب في الأول وهو السورة و في الثاني محل الثناء وهو منه . [ابن نجيم، البحر الرائق شرح كنز الدقائق،كتاب الصلاة ، باب سجود السہو ،١٠٥/٢]

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ

ابوالحسن محمد حق نوازمدنی

29 رمضان المبارک 1445ء 09 اپریل 2024ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں