سلام کے بعد دوسرے نمازی نے کہا کہ آپ نے ایک رکعت کم پڑھی ہے،شرعی حکم

سلام کے بعد دوسرے نمازی نے کہا کہ آپ نے ایک رکعت کم پڑھی ہے،شرعی حکم

سوال:مفتی صاحب، اپنی چار رکعت نماز پڑھ لی سلام پھیرنے کے بعد برابر والے نے کہا آپ نے 3 رکعت پڑھی ہیں خود کو بھی یاد نہیں اور اب تک کسی سے بات نھی کی ،اب کیا حکم ہوگا نماز کا؟

(سائل :حمید سمرو)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

پوچھی گئی صورت میں اگر یہ بتانے والا شخص عادل (با اعتماد) ہے تو نمازی کو چاہیے کو وہ اپنی نماز دوبارہ پڑھے، اور اگر یہ شخص عادل (قابل اعتماد )نہیں تو نماز دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :رجل صلى وحده أو صلى بقوم فلما سلم أخبره رجل عدل إنك صليت الظهر ثلاث ركعات قالوا إن كان عند المصلي أنه صلى أربع ركعات لا يلتفت إلى قول المخبر، كذا في المحيط.وفي الظهيرية قال محمد بن الحسن رحمه الله تعالى أما أنا فأعيد بقول واحد عدل بكل حال، كذا في التتارخانية.ولو شك المصلي في المخبر أنه صادق أو كاذب روي عن محمد رحمه الله تعالى أنه يعيد الصلاة احتياطا وإن شك في قول رجلين عدلين أعاد صلاته وإن لم يكن المخبر عدلا لا يقبل قوله.

[الفتاوى الهندية،کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السھو، ١٣١/١]

بہار شریعت میں ہے : ظہر پڑھنے کے بعد ایک عادل شخص نے خبر دی کہ تین رکعتیں پڑھیں تو اعادہ کرے اگرچہ اس کے خیال میں یہ خبر غلط ہو اور اگر کہنے والا عادل نہ ہو تو اس کی خبر کا اعتبار نہیں اور اگر مصلّی کو شک ہو اور دو عادل نے خبر دی تو ان کی خبر پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ( بہار شریعت،سجدہ سہو کا بیان،جلد 1،حصہ 4،کتبۃ المدینہ،کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ

ابوالحسن محمد حق نوازمدنی

21 شوال الکرم 1445ء 30 اپریل 2024ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں