حرام کمائی سے قربانی کرنا
سوال:مفتی صاحب ، ایک شخص جس کی کمائی حرام ذرائع سے ہے اسکی قربانی کے متعلق بتا دیں؟
(سائل :محمداحمد)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
حرام ذرائع مثلاً سود و رشوت وغیرہ کے ذریعے حاصل شدہ مال بندے کی ملکیت ہی نہیں ہوتا، اور اس مال کے سبب قربانی بھی لازم نہیں ہوتی کیونکہ یہ مال جنکا ہے انہیں یا انکے وارثوں کو لوٹانا یا پھر صدقہ کرنا لازم ہوتا ہے، اسکے علاوہ اس مال سے کوئی چیز مثلاً قربانی کا جانور وغیرہ خریدنا جائز نہیں، البتہ اگر کوئی شخص اپنی حرام آمدن سے قربانی کرتا ہے تو اس صورت میں اس شخص کی طرف سے قربانی کا واجب ادا ہو جائے گا، کیونکہ قربانی کے ایام میں قربانی کی نیت سے جانور کو ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے، ہاں یہ قربانی مقبول نہ ہو گی ، کیونکہ قرآن و حدیث کے مطابق، اللہ عزوجل متقی اور پاک کمائی والوں کے صدقات کو قبول فرماتا ہے۔
قرآن پاک میں ہے : اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ . ترجمہ: ا للہ صرف ڈرنے والوں سے قبول فرماتا ہے۔ [القرآن، المائدہ، آیت 27]
صحیح مسلم شریف میں ہے : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أيها الناس، إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا. یعنی اے لوگو ، اللہ عزوجل پاک ہے اور پاک کو ہی قبول کرتا ہے۔ [مسلم، صحيح مسلم، كتاب الزكاة ، باب قبول الصدقه، ٧٠٣/٢]
تبیین الحقائق میں ہے : ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه. یعنی خبیث کمائی کو ان کے مالکوں کو لوٹائیں گے اگر ان کو جانتے ہیں ورنہ اس مال کو صدقہ کریں گے کیونکہ خبیث کمائی جب مالک کو لوٹانا مشکل ہو تو اسے صدقہ کرنے کا حکم ہے۔ [تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق،کتاب الکراہیۃ ،فصل فی البیع،ج 6،ص 27 ]
فتاوی رضویہ میں ہے:حرام روپیہ کسی کام میں لگانا اصلاً جائزنہیں، نیک کام ہو یا اور، سوا اس کے کہ جس سے لیا اُسے واپس دے یافقیروں پرتصدّق کرے۔ بغیر اس کے کوئی حیلہ اُس کے پاک کرنے کانہیں۔ (فتاوی رضویہ ج23، ص580، رضافاؤنڈیشن)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ
ابوالحسن محمد حق نوازمدنی
26 ذیقعدۃ الحرام 1445ء 05 جون 2024ھ