بیوہ اور یتیم بچوں کو زکوۃ و فطرہ دینا

بیوہ اور یتیم بچوں کو زکوۃ و فطرہ دینا

سوال:مفتی صاحب، جس بیوہ کے پاس مال مویشی ہوں جنکی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی سے زائد ہو، کیا اس بیوہ کو بھی زکوۃ و فطرہ دے سکتے ہیں؟

(سائل:بلال احمد)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

بعض علاقوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہےکہ بغیر کسی تحقیق کے بیوہ یا یتیم بچوں کو زکوۃ و فطرہ دے دیا جاتا ہے حالانکہ بعض اوقات ا ُن بیوہ یا یتیم بچوں کی ملکیت میں اچھا خاصہ مال موجود ہوتا ہے یا بطور وراثت وہ ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر مال کے مالک بن چُکے ہوتے ہیں، اس صورت میں زکوۃ ادا نہیں ہو گی کیونکہ زکوۃ و فطرہ لینے ،دینے کے لیے بیوہ یا یتیم ہونا کوئی شرعی معیار نہیں بلکہ زکوۃ فطرہ لینے کے لیے شرعی فقیر ہونا لازمی ہے،یعنی جس کے پاس حاجت اصلیہ اور قرض سے زائد، ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر مال ہو وہ زکوٰۃ و فطرہ نہیں لے سکتا اگرچہ وہ بیوہ یا یتیم ہو، البتہ جسکے پاس اتنی مالیت نہیں اس بیوہ و یتیم کو زکوٰۃ فطرہ دینا جائز ہے۔

اللہ عز وجل قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیۡنِ …. ترجمہ: زکوٰۃ تو انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور نرے نادار…. [القرآن، سورۃ التوبہ ، آیت نمبر: 60 ]

ہدایہ شریف میں ہے : ولا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا من أي مال كان ،لأن الغني الشرعي مقدر به والشرط أن يكون فاضلا عن الحاجة الأصلية وإنما النماء شرط الوجوب ، ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من ذلك وإن كان صحيحا مكتسبا، لأنه فقير والفقراء هم المصارف. [الهداية في شرح بداية المبتدي كتاب الزكاة ، باب من يجوز دفع الصدقة إليه ، 1/112]

فتاوی رضویہ شریف میں ہے : صدقہ واجبہ مالدار کو لینا حرام اور دینا حرام اور اس کے دیے ادا نہ ہوگا ۔

( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 261 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور )

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ

ابوالحسن محمد حق نوازمدنی

29 رمضان المبارک 1445ء 09 اپریل 2024ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں