بوقت نکاح ناچاکی کی صورت میں رقم،زمین لکھوانا
سوال:مفتی صاحب، نکاح کے موقع پر حق مہر کے علاوہ ناچاکی کی صورت میں کچھ رقم لکھی جاتی ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
(سائل :صابر علی)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
♦ میاں بیوی کے درمیان ناچاکی و طلاق کی صورت میں مرد پر، عورت کے نان نفقہ و دیگر اخراجات کے لازم ہونے کے متعلق شریعت میں انصاف پر مبنی اصول و قواعد موجود ہیں،اور شرعا لازم شدہ اخراجات کا ذکر اگرنکاح نامہ میں نہ بھی کیا جائے تب بھی یہ اخراجات شوہر پر لازم ہوتے ہیں، لہذا مسلمانوں کو انہی شرعی اصولوں کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔
♦ طلاق کی صورت میں شوہر پر پیسے زمین یا گھر وغیرہ دینے کی شرط لگانا ناجائز ہے کیونکہ یہ صورت مالی جرمانے کی ہے، اور مالی جرمانہ شرعا جائز نہیں ، نیز نکاح نامہ میں اس قسم کی فاسد شرط لکھ دینے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ نکاح ہو جاتا ہے اور یہ شرط ہی باطل ہو جاتی ہے ، شرعاً شوہر پر یہ پیسے، زمین ،گھر وغیرہ دینا بھی لازم و ضروری نہیں ہوتا۔
علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں: والثاني: ما يبطل فيه الشروط ويصح النكاح، مثل أن يشترط أن لا يكون لها مهر، وأن ينفق عليها، ولا يطأها… أو شرط عليها أن تنفق عليه أو تقطعه شيئا من مالها… فهذه الشروط كلها باطلة، لأنها تنافي مقتضى العقد، والنكاح صحيح في الصور كلها؛ لأنه لا يبطل بالشروط الفاسدة. [بدر الدين العيني البناية شرح الهداية، کتاب النکاح ، باب المھر، 5/166]
مالی جرمانہ کے متعلق علامہ ابن نجیم مصری علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ یعنی شرح الآثار میں ہے تعزیر بالمال (مالی جرمانہ) ابتداء اسلام میں تھا پھر اسے منسوخ کر دیا گیا۔
[ ابن نجيم، البحر الرائق شرح كنز الدقائق، کتاب الحدود، فصل فی التعزیر، ٤٤/٥ ]
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : تعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل حرام۔
(فتاوی رضویہ ، ج23 ، ص 332 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ
ابوالحسن محمد حق نوازمدنی
21 شوال الکرم 1445ء 30 اپریل 2024ھ