بنی اسرائیل پر زکوۃ کی فرضیت

بنی اسرائیل پر زکوۃ کی فرضیت

سوال:مفتی صاحب، موسی علیہ السلام کی اُمت پر کتنی زکوۃ فرض تھی؟

(سائل:شاہد حنیف)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

موسی علیہ السلام کی امت اور دیگر بنی اسرئیلیوں پر بھی زکوۃ لازم تھی، اور اُن پر زکوۃ کے طور پر اپنے مال میں سے چوتھا حصہ نکالنا لازم تھا۔جبکہ حضور علیہ السلام کی برکت سے ہمارے اوپر چوتھائی کی بجائے چالیسواں حصہ فرض ہے۔ قرآن پاک میں ہے: وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ، وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ. ترجمہ : اور یاد کروجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہدلیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ (اچھا سلوک کرو) اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو۔ [سورۃ البقرۃ ، آیت 83]

سورۃ المائدۃ میں بنی اسرائیل کے متعلق ہے : وَ قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْؕ-لَىٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ…. ترجمہ : اللہ نے فرمایا: بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو۔[القرآن، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 12]

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام ابوالبرکات نسفی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : وكانتا فريضتين عليهم. یعنی نماز اور زکوۃ دونوں بنی اسرائیل پر فرض تھیں۔ [تفسير النسفي ، مدارك التنزيل وحقائق التأويل، تحت سورۃ المائدۃ، 1/434]

سورۃ البقرۃ میں ہے : رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَاۚ ترجمہ: اے ہمارے رب! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا ۔ [القرآن، سورۃ البقرۃ ،آیت نمبر: 286]

اسکے متعلق ،معروف تفسیر، تفسیر جلالین میں ہے : أي بني إسرائيل من قتل النفس في التوبة وإخراج ربع المال في الزكاة وقرض موضع النجاسة. یعنی بنی اسرئیل پر توبہ میں خود کشی کرنا،اور زکاۃ میں مال کا چوتھائی نکالنا،اور ناپاک جگہ کو اُکھیڑنا (لازم تھا)

[المحلي، جلال الدين، تفسير الجلالين، تحت سورۃ البقرۃ ، صفحة ٦٤]

علامہ شیخ اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: فهذه الأمور رفعت عن هذه الامة تكريما للنبى صلى الله تعالى عليه وسلم . یعنی یہ تمام سخت احکام حضور علیہ السلام کی کی تکریم کے پیش نظر ،اس امت سے اُٹھا دیے گئے۔ [إسماعيل حقي، روح البيان، ١٣٨/١]

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ

ابوالحسن محمد حق نوازمدنی

29 رمضان المبارک 1445ء 09 اپریل 2024ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں