امانت رکھی ہوئی چیز کی زکوۃ کا حکم
سوال:مفتی صاحب، کسی کا سونا امانت رکھا ہوا ہے تو کیا اس کی زکوۃ لازم ہو گی، اور یہ زکوۃ گھر والوں کو دینی ہوگی یا جس کا ہے اس پر اس کی زکوۃ لازم ہے؟
(سائل:بنت حوا)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
وہ مال زکوۃ جو کسی جاننے والے مثلا رشتہ دار، دوست وغیرہ کے پاس امانت رکھوایا ہو شرعا اُس مال پر زکوۃ لازم ہوتی ہے جبکہ زکوۃ کی دیگر شرائط پائیں جائیں، اور یہ زکوۃ مال کے اصل مالک پر لازم ہوتی ہے ،امین پر نہیں کیونکہ مال اُسی کی ملکیت ہے نہ کہ امین کی،البتہ جو مال کسی اجنبی کے پاس بطور امانت رکھوایا تھا جسکا معلوم نہیں تو اُس مال پر ملنے کے وقت تک زکوۃ لازم نہیں ۔
در مُختار مع ردالمحتار میں ہے : (ولا في مال…مدفون ببرية نسي مكانه) ثم تذكره وكذا الوديعة عند غير معارف…..(قوله عند غير معارفه) أي عند الأجانب، فلو عند معارفه تجب الزكاة . یعنی جو مال کسی ایسی جگہ دفن کیا تھا جو جگہ بھول گئی تھی پھر بعد میں یادآئی تو اس مال پر بھی (گزشتہ) زکوۃ واجب نہیں، اور ایسے ہی کسی اجنبی کے پاس رکھی ہوئی امانت کا حکم ہے(یعنی اس امانت پر بھی زکوۃ نہیں)…. مصنف کے قول عند غیر معارف سے مراد اجنبی ہیں، لہذا اگر کسی جاننے والے کے پاس امانت رکھوائی تو اُس امانت پر زکوۃ لازم ہو گی۔ [ابن عابدين ،الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،کتاب الزکاۃ ، 2/266]
بہار شریعت میں ہے:(جو چیز)انجان کے پاس امانت رکھی تھی اور یہ یاد نہ رہا کہ وہ کون ہے یا مدیُون نے دَین سے انکار کر دیا اور اُس کے پاس گواہ نہیں پھر یہ اموال مل گئے، تو جب تک نہ ملے تھے، اُس زمانہ کی زکاۃ واجب نہیں۔ (بہار شریعت، زکوۃ کا بیان ،ج1، ح 5)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ
ابوالحسن محمد حق نوازمدنی
26 رمضان المبارک 1445ء 06 اپریل 2024ھ