امام صاحب کافجر میں مختصر قراء ت کرنا
سوال:ایک مسجد کے امام فجرکی جماعت میں پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعدسات آٹھ آیات اوردوسری رکعت میں تین چارآیات پڑھتے ہیں تویہ افضل ہے یا60آیات افضل ہیں؟
User ID: Moin Shiekh
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
حالتِ حضر یعنی جب سفرمیں نہ ہوں توفجروظہرمیں طوالِ مفصل یعنی سورہ حجرات سے سورہ بروج میں سے کوئی سورت پڑھنامسنون ہے ہاں کوئی وجہ ہومثلاوقت تنگ ہوتومختصرقراء ت کرسکتاہے بلکہ یہ حدیثِ پاک سے ثابت ہے۔ درمختارمیں ہے:(و) يسن (في الحضر) لإمام ومنفرد، ذكره الحلبي، والناس عنه غافلون (طوال المفصل) من الحجرات إلى آخر البروج (في الفجر۔ترجمہ:حالتِ حضر میں فجر میں مسنون قراءت طوالِ مفصل یعنی سورہ حجرات سے بروج کی ہے اوریہ امام و منفرد دنوں کیلئے ہےیہ حلبی نے ذکرکیالوگ اس سے غافل ہیں۔(شامی،کتاب الصلوۃ،فصل فی القراءۃ،ج1،ص541-539،بیروت)شامی میں ہے:(قوله واختار في البدائع عدم التقدير إلخ) وعمل الناس اليوم على ما اختاره في البدائع رملي. والظاهر أن المراد عدم التقدير بمقدار معين لكل أحد وفي كل وقت، كما يفيده تمام العبارة، بل تارة يقتصر على أدنى ما ورد كأقصر سورة من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورة من قصاره عند ضيق وقت أو نحوه من الأعذار، «لأنه – صلى الله عليه وسلم – قرأ في الفجر بالمعوذتين لما سمع بكاء صبي خشية أن يشق على أمه» وتارة يقرأ أكثر ما ورد إذا لم يمل القوم، فليس المراد إلغاء الوارد ولو بلا عذر۔ترجمہ:۔۔۔کبھی عذرکیوجہ سے طوالِ مفصل کاادنی بلکہ وقت کی تنگی وغیرہ اعذار کی وجہ سے قصار مفصل کی چھوٹی سورتیں بھی پڑھ سکتاہے جیسے حضورﷺ نے فجرمیں بچے کے رونے کی آوازسن کر معوذتین کی تلاوت کی کہ اسکی ماں مشقت میں نہ پڑے۔۔۔۔(ص541)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
تیموراحمدصدیقی
20رمضان المبارک 1445ھ/31مارچ 2024 ء