وکیل مظہر کا لفظ” رسول “کی غلط تفسیر بیان کرنا
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ کچھ دن پہلے صادق آباد کے ایک وکیل شخص مظہر نامی نے قرآ ن پا ک کی تفسیر کچھ یوں بیان کی ہے کہ قرآن پاک میں ہے﴿قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ﴾ (آل عمران ،آیت 32)
اس آیت میں لفظ” رسول “کا ترجمہ یہ کیا کہ اللہ کے اس بندے کی اطاعت کرو جوقر آن کے مطابق فیصلے کرتا ہے ۔اس پر ساتھ ہی قریب بیٹھے ایک شخص نے کہا کہ آپ نے لفظ ”رسول “کا ترجمہ غلط کیا ہےکیونکہ یہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور رسول سے مراد حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہیں کوئی اور بندہ نہیں ۔ جس کے جواب میں مظہر نے اس کا انکار کیا اور کہا :
”جو بندہ اللہ کے حکم کی طرف بلاتا ہے قرآن کی طرف بلاتا ہے وہ مراد ہے۔اس آیت میں محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا نام نہیں لہذا وہ مرا د نہیں ۔محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہم میں موجود نہیں ۔“
لفظ رسول کی یہ تشریح کی کہ:” اس بندے کی اطاعت کرو کہ جو آج زندہ ہم میں قرآن کے مطابق فیصلے کرے اور وہ اللہ کا سفیر ہو گا۔“
مزید اس نے سیاسی حکمران بلاول شہباز وغیرہ کو اللہ کا سفیر ،اللہ کا رسول ثابت کیا کہ جب یہ لوگ قرآن کے مطابق فیصلے کریں۔
” فَاِنۡ تَوَلَّوْا“ کا ترجمہ یہ کیا کہ پھر اگر ہم اس بندے کی اطاعت نہ کریں تو یہ جرم بھی کیا اور اللہ کا حکم بھی توڑا۔
”فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ“ اس آیت کے حصے کا ترجمہ یوں کیا: پھر اللہ ایسے انکار کرنے والوں کو پسند نہیں کر تا ۔یعنی آج ہم اللہ کے بندے کو اپنا لیڈر نہیں مانتے تو اللہ ہم سے محبت نہیں کرتا ۔اللہ ہم سے نفرت کرتا ہے اور اس کا ثبوت کہ پچہتر سالہ زندگی ہے جس میں ہم ذلیل ہو رہے ہیں ۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ﴾
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى یہ ترجمہ کیا :اللہ چن لیتا ہے زندہ موجود بندوں میں سے ایک بندے کو کہ جس کے ذریعے نظام نافذ کرنا ہے۔
آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں ارشاد فرمائیں کہ اس مظہر نامی وکیل کا یوں قرآن سے یہ باتیں ثابت کرنادرست ہے یانہیں؟
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب
سوال میں بیان کردہ صورتوں کے مطابق مظہر نامی شخص قرآن پا ک کی کئی غلط تفاسیر بیان کرنے کے سبب سخت گناہ گار ہوا اورکئی کفریات کا مرتکب ہوا۔ شرعا اس شخص پر توبہ اور تجدید ایمان لازم ہے۔ اگر شادی شدہ ہے تو تجدید نکاح بھی کرے۔تفصیل کچھ یوں ہے:
٭ بغیر علم کے قرآن کی تفسیر اپنے طور پر کرنا ناجائز و حرام ہے اور حضور علیہ السلام نے جہنم کا مستحق فرمایا۔ اس بیان میں موصوف نے ” فَاِنۡ تَوَلَّوْا“ کی تفسیر اور”فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ“ کی تفسیر غلط بیان کی کیونکہ اس جگہ حضور علیہ السلام کی اطاعت کی بات ہورہی ہے اور آپ کی اطاعت سے منہ پھیرنے والوں کو کافر کہا گیا ہے۔یونہی ” اِصْطَفٰۤی“سے مراد جو موصوف نے حاکم وغیرہ لیا ہے وہ بھی غلط ہے کہ وہاں مکمل آیت سے واضح ہے کہ حضرت آدم اورحضرت نوح اورحضرت ابراہیم کی اولاد اورحضرت عمران کی اولاد کوچننا مراد ہے ۔
٭ مظہر وکیل نے لفظ ”رسول “ سے مراد حضور علیہ السلا م نہیں لیے بلکہ وہ سیاسی لیڈر و حاکم مراد لیے ہیں اور حضور علیہ السلام کو رسول فقط ان کی حیات تک موقوف کیا ہے۔اس جملہ میں رسول کا ایک ترجمہ کیا گیا ہے جو بالکل باطل اور چودہ سو سالوں میں کسی نے بھی نہیں کیا۔علمائے کرام نے صراحت کی کہ ”رسول “ سے کوئی اور لغوی معنی وغیرہ مراد لینا اور غیر نبی کو کسی اعتبار سے رسول کہنا باطل و کفر ہے۔
٭ موصوف کے اس جملے” آیت میں محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا نام نہیں لہذا وہ مرا د نہیں ۔محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہم میں موجود نہیں ۔“ سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا زوال ثابت ہورہا ہے جبکہ کسی بھی نبی سے نبوت کے زوال کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔نیز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی نفی ہ،حالانکہ قیامت تک حضور علیہ السلام ہی اطاعت ضروری ہے ورنہ تو شریعت محمدیہ ہی کالعدم ہوجائے گی۔
٭وکیل مظہر کو لگتاہے کہ اپنی کم علمی میں یہ شبہ ہوا ہے کہ قرآن میں دوسری جگہ اللہ ورسول کی اطاعت کے بعد ”۔“ کی اطاعت کا حکم ہے۔اس سے بعض علماء نے حاکم کی اطاعت مراد لی ہے اگرچہ اس میں بھی صحیح قول یہی ہے کہ اس سے مراد علمائے دین ہیں ،نیز حاکم کی اطاعت سے بھی مراد وہی اطاعت ہے جو شریعت کے مطابق حکم کرے۔
جامع ترمذی کی حدیث پاک ہے
” عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ فِي القُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ“
ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو قرآن کے متعلق بغیر علم کے کچھ کہے وہ اپنا ٹھکانہ آگ سے بنائے ۔یہ حدیث حسن ہے۔
(جامع ترمذی، باب ما جاء في الذي يفسر القرآن برأيه ،جلد5،صفحہ49، دار الغرب الإسلامي ، بيروت)
تفسیرصراط الجنان میں ہے: {اَطِیۡعُوا اللہَ وَالرَّسُوۡلَ: اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو۔} حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جب یہ آیت ’’قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ‘‘ نازل ہوئی تو عبد اللہبن اُبی منافق نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’محمد (مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اپنی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرح قرار دے رہے ہیں اور یہ حکم کر رہے ہیں کہ ہم ان سے اسی طرح محبت کریں جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
(البحر المحیط، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ۲/۴۴۹)
اور فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ نے میری اطاعت اس لئے واجب کی کہ میں اس کی طرف سے رسول ہوں اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ اس کے رسول ہی ہیں اس لئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری لازمی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اطاعت سے منہ پھیریں تو انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہ ہو گی اور اللہ تعالیٰ انہیں سزادے گا۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳/۱۹۸، جلالین، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۴۹، ملتقطاً)۔۔۔
{اِنَّ اللہَ اصْطَفٰۤی اٰدَمَ: بیشک اللہ نے آدم کو چن لیا۔} یہودیوں نے کہا تھا کہ ہم حضرت ابراہیم ،حضرت اسحق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں اور انہیں کے دین پر ہیں ،اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور بتادیا گیا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو اسلام کے ساتھ برگزیدہ کیا تھا اور اے یہودیو! تم اسلام پر نہیں ہو تو تمہارا یہ دعویٰ غلط ہے۔ “(صرا ط الجنان،جلد1،صفحہ461،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
شرح الشفاء میں ہے
” تأويلا للرسالة العرفية بالإرادة اللغوية وهو مردود عند القواعد الشرعية“
ترجمہ:رسالت کی عرفی معنی سے ہٹ کر لغوی اعتبار سے تاویل کرنا قواعدشرعیہ کی رو سے مردود ہے۔(شرح الشفا،الباب الأول (في بيان ما هو في حقه صلى الله تعالى عليه وسلم سب أو نقص من تعريض أو نص)،جلد2،صفحہ396،دار الكتب العلمية، بيروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے
’’لو قال: أنا رسول اللہ، أو قال بالفارسیۃ من بیغمبرم یرید بہ من بیغام می برم یکفر‘‘
ترجمہ: اگر کسی نے کہا ’’ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ یا فارسی زبان میں کہا : ’’میں پیغمبر ہوں۔‘‘اورنیت یہ ہے کہ میں پیغام پہنچانے والا ہوں تو ایسے شخص کی تکفیر کی جائے گی۔ (فتاوی عالمگیری،کتاب السیر،الباب التاسع فی احکام المرتدین، جلد2، صفحہ263، دار الفکر، بیروت)
المعتقد المنتقد میں ہے”من جوز زوال النبوۃ من نبي فإنّہ یصیر کافراً“
ترجمہ:جو شخص نبی سے نبوّت کا زوال جائز جانے کافر ہے۔(المعتقد المنتقد، مسئلۃ: من جوّز زوال النبوۃ من نبي۔۔۔ إلخ، ص109 )
تفسیر طبری میں ہے
” قوله: {فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ}قال أبو جعفر: يعني بذلك جل ثناؤه: فإن اختلفتم، أيها المؤمنون، في شيء من أمر دينكم: أنتم فيما بينكم، أو أنتم وولاة أمركم، فاشتجرتم فيه فردوه إلى الله۔۔۔۔وأما قوله: والرسول ، فإنه يقول: فإن لم تجدوا إلى علم ذلك في كتاب الله سبيلا فارتادوا معرفة ذلك أيضًا من عند الرسول إن كان حيًا، وإن كان ميتًا“
ترجمہ:اللہ عزوجل کا فرمان: اگر تم کسی امر میں تنازع کرو تو اس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی طرف پھیرو اگر تم اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔ابوجعفر نے کہا کہ اللہ عزوجل کی اس فرمان سے مراد ہےکہ اگر دینی کسی مسئلہ میں اے مسلمانو ں تمہارا آپس میں یا تمہارے اور حاکموں کے درمیان اختلاف ہوجائے تو اس مسئلہ کو اللہ عزوجل کی طرف پھیرو(یعنی قرآن سے حل تلاش کرو )اللہ عزوجل کا فرمانا کہ رسول کی طرف پھیرو اس کا مطلب ہے کہ اگر قرآن سے اس کا مسئلہ کا حل نہ پاؤ تو اس کی معرفت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پھیرو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ہوں یا دنیا سے پردہ کرگئے ہوں۔(یعنی ہر صورت حضور علیہ السلام اور ان کی تعلیمات سے حل تلاش کرو۔)
(تفسیر طبری،جلد8،صفحہ504، مؤسسة الرسالة،بیروت)
قیامت تک جب بھی فتنے ہوں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف رجوع کرنے کے حوالے سے آپ علیہ السلام فرمایا
’’یأتی علی الناس زمان لا تطاق المعیشۃ فیہم إلا بالمعصیۃ حتی یکذب الرجل ویحلف فإذا کان ذلک الزمان فعلیکم بالہرب قیل یا رسول اللہ وإلی أین المہرب قال إلی اللہ وإلی کتابہ وإلی سنۃ نبیہ‘‘
ترجمہ: لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا لوگ گناہ کے علاوہ معیشت پانے پر قادر نہ ہوں گے یہاںتک کہ آدمی جھوٹ اور قسمیں کھائے تو جب ایسا زمانہ آجائے تو تم نے بھاگنا ہے ۔عرض کی گئی یارسول اللہ عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرف ؟ فرمایا اللہ اور اسکی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کی کی طرف ۔(کنزالعمال ، کتاب الایمان والاسلام،البا ب الثانی فی الاعتصام ۔۔ ،جلد1،صفحہ348، مؤسسة الرسالة،بيروت)
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔
(پارہ 5، سورۃ النساء،آیت 59 )
تفسیر طبری میں ہے
” لا طاعة تجب لأحد فيما أمر ونهى فيما لم تقم حجة وجوبه، إلا للأئمة الذين ألزم الله عباده طاعتهم فيما أمروا به رعيتهم مما هو مصلحة لعامة الرعيّة، وكذلك في كل ما لم يكن لله معصية“
ترجمہ: کسی کی اطاعت حکم و ممانعت میں واجب نہیں جب تک اس کی اطاعت کے وجوب پر دلیل نہ ہو۔سوائے ائمہ حضرات کی اطاعت کے کہ اللہ عزوجل نے ان کے رعایا پر احکام ماننےکو لازم کیا ہے۔وہ احکام جو اس عام رعایا کے لیے فائدہ مند ہوں یونہی وہ احکام ماننا ہیں جن میں اللہ عزوجل کی نافرمانی نہ ہو۔
(تفسیر طبری،جلد8،صفحہ503، مؤسسة الرسالة،بیروت)
صراط الجنان میں ہے:
: اِس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔نیز اس آیت سے معلوم ہوا کہ احکام تین قسم کے ہیں ایک وہ جو ظاہر کتاب یعنی قرآن سے ثابت ہوں۔ دوسرے وہ جو ظاہر حدیث سے ثابت ہوں اور تیسرے وہ جو قرآن و حدیث کی طرف قیاس کے ذریعے رجوع کرنے سے معلوم ہوں۔ آیت میں ’’ أولي الأمر منكم ‘‘ کی اطاعت کا حکم ہے ، اس میں اما م، امیر، بادشاہ، حاکم، قاضی، علماء سب داخل ہیں۔“(صراط الجنان،جلد2،صفحہ230،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
بیان کردہ آیات کی تفسیر میں صحابی رسول حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول تفسیر طبری میں ہے
” حدثني المثنى قال، حدثنا عبد الله بن صالح قال، حدثني معاوية بن صالح، عن علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس قوله: أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم، يعني: أهل الفقه والدين“
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ عزوجل کے اس فرمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔اس آیت میں حکومت والوں سے مراد علمائے کرام ہیں۔(تفسیر طبری،جلد8،صفحہ500، مؤسسة الرسالة،بیروت)
امام بخاری کے استاد محترم عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ اپنی مصنف میں روایت کرتے ہیں
” عن مجاهد في قوله تعالى: {وأولي الأمر منكم} قال: «هم أهل الفقه والعلم»“
حضرت مجاہد(تابعی بزرگ) سے مروی ہے کہ اللہ عزوجل کے اس فرمان کہ تم میں سے حکومت والے: فرماتے ہیں یہاں اولی الامر سے مراد علمائے کرام ہیں۔(مصنف عبد الرزاق، سورة النساء،جلد1صفحہ465، دار الكتب العلمية – بيروت)
فتاوی رضویہ میں امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
” آیت: (یٰۤاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمْرِ مِنۡکُمْ) ”اے ایمان والو!حکم مانو اﷲکااور فرمانے پر چلورسول اﷲاور اپنے علماء کے” ۔صحیح یہ ہے کہ اس آیت میں ”اولی الامر ”سے مراد ”علماء” ہیں۔ دیکھو ”زرقانی شرح مواہب” دوسری آیت : (وَلَوْرَدُّوْہُ اِلیَ الرَّسُوْلِ وَاِلٰی اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ، مِنْھُمْ )جو معاملہ پیش آتا، اگراسے رسول اور اپنے عالموں کی طرف رجوع کرتے تو ضرور وہ جو اپنی فکر سے باریک حکم نکالتے ہیں،خدا کا حکم جان لیتے ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہوا کہ استنباط پر، مجتہد ین ہی قادر ہیں اور مسلمانوں کو ان کی طرف رجوع کاحکم ہے اور نیز یہ کہ” اولی الامر” سے مراد ”علماء” ہیں۔کہ اس آیت کے بڑے مصداق ابوبکر و عمر ہیں رضی اﷲتعالیٰ عنہما اوریہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانے میں حاکم نہ تھے ۔ “(اظہار الحق الجلی،صفحہ75،76،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
فتاوی رضویہ میں سوال ہوا:
”مطلع فرمائیے کہ ”اولی الامر منکم(اوران کاحکم مانوجوتم میں حکومت والے ہیں۔)کی بابت رشیداحمدصاحب ”علماء وفقہاء” تجویزفرماتے ہیں اوربعض علماء نے ”بادشاہ اسلام” مرادلیاہے۔ لہٰذا آپ اپنی رائے بابت ”اولی الامر” کے تجویزفرمائیے کہ کون ہیں جن کی اطاعت قرین اطاعت جناب رسول مقبول صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم ہے اورنیز یہ بھی تحریر فرمائیے کہ جس نے امام وقت کونہ پہچانا اس کی موت جاہلیت پرہوگی، اس کاکیامطلب ہے؟ اوریہ بھی تحریرفرمائیے کہ جس وقت یزیدملعون تخت نشین تھا آیا وہ بھی ”اولی الامرمنکم” میں شامل ہے یانہیں؟اگرنہیں ہے تواس وقت کون ”اولی الامر”تھا۔ مفصل ومشرح ”اولی الامر” کے معنی اس وقت سے اس وقت تک کے تحریرفرمائیے۔“
جواباامام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
””اولی الامر” میں اصح القول یہی ہے کہ اس سے مراد علمائے دین ہیں کما نص علیہ الزرقانی وغیرہ (جیساکہ ا س پرزرقانی وغیرہ نے نص فرمائی ہے۔ت) نہ کہ سلاطین جن کے بہت احکام خلاف شرع ہوتے ہیں۔ یزیدپلید کے وقت میں بکثرت صحابہ کرام وتابعین اعلام تھے وہی ”اولی الامر” تھے نہ کہ یزیدعلیہ مایستحقہ۔ ہررسالت کے زمانہ میں وہ رسول اوراس کی کتاب امام ہوتی ہے قال تعالٰی کتٰب موسٰی اماماورحمۃ (اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: موسٰی علیہ السلام کی کتاب پیشوا اورمہربانی ہے۔ت) زمانہ ختمیت میں آخر دہرتک قرآن عظیم وحضورسیدالمرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم امام ہیں، جس نے انہیں نہ پہچانا ظاہرکہ وہ جاہلیت کی موت مرا۔واﷲ تعالیٰ اعلم۔“
(فتاوی رضویہ،جلد26،صفحہ463،رضافاونڈیشن،لاہور)
مزید ایک جگہ فرماتے ہیں:
”باقی جومنصب امامت ولایت سے بڑھ کرہے وہ خاصہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ہے جس کوفرمایا” انّی جاعلک للناس اماما“ (میں تمہیں لوگوں کاپیشوا بنانے والاہوں۔) وہ امامت کسی غیرنبی کے لئے نہیں مانی جاسکتی،”اطیعوااﷲ واطیعواالرسول واولی الامر منکم“ (حکم مانو اﷲ کا اورحکم مانورسول اﷲ کااوران کا جوتم میں حکومت والے ہیں۔) ہرغیرنبی کی امامت”اولی الامرمنکم“ تک ہے جسے فرمایا:” وجعلنٰھم ائمۃ یھدون بامرنا“ (اورہم نے انہیں امام کیاکہ ہمارے حکم سے بلاتے ہیں۔) مگر” اطیعوا الرسول “کے مرتبے تک نہیں ہوسکتی۔“(فتاوی رضویہ،جلد26،صفحہ430،رضافاونڈیشن،لاہور)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری
20شعبان المعظم 1445ھ02مارچ 2024ء