جہیز کو لعنت بولنے کا شرعی حکم
سوال:مفتی صاحب،”جہیز ایک لعنت ہے”یہ جملہ بولنا کیسا؟
(سائل:محمد عثمان)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
♦ والدین کی طرف سے بیٹی کی رخصتی کے وقت، با آسانی خوشدلی کے ساتھ جو جہیز کا سامان دیا جائے اس میں کوئی حرج نہیں کہ یہ اپنی بیٹی کے ساتھ شفقت، محبت و معاونت کی ہی ایک صورت ہے، بلاشبہ یہ ایک اچھا عمل ہے اور حضور علیہ الصلاۃ و السلام سے ثابت ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی لخت جگر بی بی فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنھا کو رخصتی کے وقت کچھ سامان تیار کرا کے دیا تھا، اس اعتبار سے جہیز کو لعنت کہنا ہر گز جائز نہیں اور کسی مسلمان سے یہ متصور بھی نہیں کہ وہ اس اعتبار سے جہیز کو لعنت سمجھے یا کہے۔
♦ ہمارے معاشرے میں فی زمانہ جہیز کو ایک ایسی رسم کے طور پر قبول کیا گیا ہے جو متعدد شرعی خرابیوں کا مجموعہ ہے، ایسے میں کسی غیر شرعی خارجی امر پر مشتمل ہونے کے سبب،اگر کوئی جہیز کو لعنت کہہ دے تو اس میں حرج نہیں، جیسے دولہے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ کرنا ، نہ دینے پر شادی سے انکار، لعن طعن کرنا، والدین کا بچیوں کی شادی میں جہیز کے سبب غیر ضروری تاخیر کرنا، سودی قرضے لینا، انتظام نہ ہونے پر خودکشی وغیرہ وغیرہ۔
سنن نسائی، شعب الایمان ،مسند احمد اورمستدرک علی الصحیحین میں ہے : عن علي، رضي الله عنه قال: جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة في خميل و قربة و وسادة حشو ها إ ذخر . یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ،فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایک چادر‘ ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ جس میں اذخر کی گھاس بھری ہوئی تھی تیار کر کے دی۔
[النسائي، سنن النسائي،كتاب النكاح ،باب جهاز الرجل ابنته، حديث 3384، ١٣٥/٦]
وقار الفتاوی میں ہے : کثرت جہیز نے ایسی تکلیف دہ صورت حال اختیار کر لی ہے کہ جسکی وجہ سے بہت سے والدین کے لیے اپنی لڑکیوں کا رشتہ کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے، ان کے دن کا چین اور رات کا سکون چھن گیا، محض اس وجہ سے کہ وہ رشتہ کرنے والوں کی طرف سے منہ مانگا جہیز نہیں دے سکتے انکی زندگی اجیرن ہو گئی ہے، اسلامی معاشرے میں اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔
[وقار الفتاوی، کتاب النکاح ،جلد 3 ،صفحہ 135، بزم وقار الدین]
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ
ابوالحسن محمد حق نوازمدنی
29 رجب المرجب 1445ء 10 فروری 2023ھ