بہو یا داماد کا وراثت میں حصہ
سوال:مفتی صاحب، ایک عورت فوت ہوگئی اس کے پاس 3 تولہ سونا ہے، شوہر، 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں، بہو بھی ہے، والدین نہیں،میراث کی تقسیم کس طرح ہوگی، کیا بہو کو بھی حصہ ملے گا؟
(سائل:اسد خان)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
وراثت کے اسباب صرف تین ہیں: نسب ، زوجیت اور ولاء، اسکے علاوہ وراثت کا کوئی سبب نہیں، لہذا وراثت میں بہو ،داماد،ساس یا سُسر ہونے کا اعتبار نہیں، بہو یا داماد ہونے کی حیثیت سے کوئی بھی اپنےساس سُسر کا وارث نہیں بن سکتا،نیز اگر دیگر وارثوں کی معلومات درست ہیں تو میت کی تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور جائز وصیت کی صورت میں باقی ماندہ مال کے ایک تہائی سے وصیت کی ادائیگی کے بعد، میت کی کل جائیدادکے 32 حصے کر کے 8 شوہر کو، 6،6 حصے تینوں بیٹوں کو اور 3،3 دونوں بیٹیوں کو ملیں گے۔
المبسوط للسرخسی میں ہے : الأسباب التي بها يتوارث ثلاثة الرحم والنكاح والولاء یعنی وہ اسباب جن سے وراثت متعلق ہوتی ہے،تین ہیں : رحم یعنی نسب،نکاح اور ولاء۔ [السرخسي، المبسوط للسرخسي،كتاب الفرائض ، ١٣٨/٢٩]
فتاوی رضویہ میں ہے : داماد یاخسرہونا اصلاً کوئی حق وراثت ثابت نہیں کرسکتا خواہ دیگر ورثاء موجود ہوں یانہ ہوں ہاں اگر اوررشتہ ہے تواس کے ذریعہ سے وراثت ممکن ہے مثلاًداماد بھتیجا ہے خسرچچاہے تواس وجہ سے باہم وراثت ممکن ہے۔
[فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 332،رضا فاؤنڈیشن لاہور ]
مسئلہ از 4 X 32 = 8
میـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت
شوہر بیٹا بیٹا بیٹا بیٹی بیٹی بہو
1/4 عصبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ مـــــــــحروم
1x 8=8 3 24=8x
8 6 6 6 3 3
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ
ابوالحسن محمد حق نوازمدنی
29 رجب المرجب 1445ء 10 فروری 2023ھ