اللہ عزوجل کو وکیل کہنا

اللہ عزوجل کو وکیل کہنا

سوال:مفتی صاحب، یہ کہنا کیسا کہ وہ لوگ مقدمہ جیت جاتے ہیں جو اللہ کو اپنا وکیل بناتے ہیں، کیا یہ کہنا درست ہے؟

(سائل:ابن ظفر)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب

♦ اللہ عزوجل کو وکیل اس معنی میں کہنا جائز ہے کہ وہ ہمارا کارساز ہے، ہمارے تمام معاملات کو بنانے والا وہی ہے اور اپنے معاملات میں ہم اسی کے محتاج ہیں، کیونکہ وکیل مطلق اللہ ہی کی ذات ہے جیسا کہ قرآن و حدیث میں اسی معنی کے اعتبار سے اللہ عزوجل کا یہ صفاتی نام موجود ہے۔

♦ البتہ وکیل بمعنی نائب یعنی جسکو کوئی دوسرا اپنا نائب بنائے یا اپنے تمام تر معاملات اُ سكے سپرد کرے اور وہ وکیل اصل کی عدم موجودگی میں اصل کی طرف سے کوئی فعل کرے، یہ معنی اللہ عزوجل کے لیے محال ہے، اس اعتبار سے اللہ عزوجل کے لیے لفظ وکیل کا استعمال ہر گز جائز نہیں، البتہ کسی مسلمان سے یہ معنی مُراد لینا متصورنہیں۔

قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اللہ تعالی کے اس صفاتی اسم کا تذکرہ ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا.. وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ.. وَ كَفٰى بِرَبِّكَ وَكِیْلً.. وَّ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ. [القرآن ، النساء81، ھود12، الآسراء 65 ، الأحزاب 48، الزمر 62]

ترمذی شریف میں ہے: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن لله تعالى تسعة وتسعين اسما، مئة غير واحدة، من أحصاها دخل الجنة، هو الله الذي لا إله إلا هو الرحمن، الرحيم، الملك، القدوس….. الشهيد، الحق، الوكيل، القوي، المتين.

[الترمذي، محمد بن عيسى،سنن الترمذي ت بشار،ابواب الدعوات، 5/411]

شرح مشکوۃ میں ہے: وقوله: (الوكيل) هو القائم بأمور العباد، وبتحصيل ما يحتاجون إليه.. والمستحق بذاته أن تكون الأمور موكولة إليه لا بتوكيل وتفويض.. وذلك هو الوكيل المطلق، والوكيل المطلق هو الذي الأمور موكولة إليه وهو ملي بالقيام بها، وفي بإتمامها، وذلك هو الله تعالى وحده.[لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح،کتاب الدعوات کتاب اسماء اللہ تعالی،5/97]

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ

ابوالحسن محمد حق نوازمدنی

26 رجب المرجب 1445ء 07 فروری 2023ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں