مانگی ہوئی جنت سے جہنم کا عذاب اچھا، جملے کا حکم
سوال:مفتی صاحب، یہ جملہ بطور محاورہ بولنا کیسا ، مانگی ہوئی جنت سے جہنم کا عذاب اچھا ؟
(سائل:ملک عاقب صدیق)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب اللہم ہدایۃ الحق والصواب
♦ قرآن و حدیث میں بکثرت اللہ تبارک وتعالی سے جنت کا سوال کرنے اور جہنم سے پناہ مانگنے کی ترغیب موجود ہے جبکہ یہ جملہ بظاہر اس حکم کی تردید پر مشتمل ہے، لہذا یہ جملہ بولنا ہر گز جائز نہیں، نیز جنت کے مقابلے میں کسی ادنی چیز کو ترجیح دینا یا جنت سے اعراض کو فقہائے کرام نے کفر لکھا ہے،لہذا اس اعتبار سے ایسا بولنے والے پر توبہ وتجدید ایمان لازم ہے۔
♦ مُحاورے کے طور پر بھی کلمہ کفربولنا بولنا جائز نہیں،ہمارے ہاں عموماً کسی قوم،فرد یا معاشرے میں جذبہ خودداری اور محنت کا شوق پیدا کرنے کے لیے یا پھر مانگ مانگ کر کھانے اور بغیر محنت و کسب مفت کا فائدہ اٹھانے والوں کی حوصلہ شکنی کے لیے یہ جملہ بطور محاورہ بولا جاتا ہے،اگرچہ اس وقت قائل کی نیت جنت کی توہین و تحقیر نہیں، لیکن شرعااس صورت میں بھی کلمہ کفر بولنے کی اجازت نہیں ہوتی اگرچہ بولنے والے کا اعتقاد کفریہ نہ ہو اور اسکا دل ایمان پر مطمئن ہو، لہذا بہر صورت ایسے جملے سےتوبہ اورآئندہ اجتناب لازم ہے۔
بُخاری شریف میں حضور علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے : فإذا سألتم الله، فاسألوه الفردوس، فإنه أوسط الجنة وأعلى الجنة.یعنی جب تم ﷲ سے مانگو تو فردوس مانگو وہ جنت کا درمیان اور جنت کا اعلیٰ حصہ ہے۔[صحيح البخاري، كتاب الجهاد، باب درجات المجاهدين]
مجمع الأنهر میں ہے : ویکفر…بقوله لو أعطاني الله الجنة لا أريدها دونك أو لا أدخلها مع فلان أو لو أعطاني الله تعالى الجنة أو لأجل هذا العمل لا أريدها أو لا أريد الجنة. [مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر،باب المرتد ،أنواع الفاظ الكفر، ٦٩٥/١]
فتاوی ہندیہ میں ہے: الهازل، أو المستهزئ إذا تكلم بكفر استخفافا واستهزاء ومزاحا يكون كفرا عند الكل، وإن كان اعتقاده خلاف ذلك…. رجل كفر بلسانه طائعا، وقلبه مطمئن بالإيمان يكون كافرا ولا يكون عند الله مؤمنا كذا في فتاوى قاضي خان. [الفتاوى الهندية،کتاب السیر، باب أحكام المرتدین، ٢٧٦/٢-٢٨٣]
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کـتبـــــــــــــــــــــــہ
ابوالحسن محمد حق نوازمدنی
16 رمضان المبارک 1445ء 27 مارچ 2024ھ