مرد کا اپنی بیوی کے انتقال کے بعد اس کی میت کو غسل دینا جائز نہیں تومولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کو کیسے غسل دیا ؟
عورت کا انتقال ہوجائے تو شوہرکو اسے غسل دینا جائز نہیں اور جو یہ کہا گیا کہ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کو غسل دیا اس کے علما نے چند جوابات دیے ہیں۔پہلا یہ کہ یہ روایت محل نظر ہے اور اس کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔دوسرا یہ کہ ایک روایت کے مطابق بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کو ام ایمن رضی اللہ عنھا نے غسل دیا تھا۔تیسرا یہ کہ مولا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا اس وجہ سےفعل ان کی طرف منسوب کردیا گیا۔چوتھا یہ کہ یہ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ خاص ہے کیونکہ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا نکاح خاتون جنت رضی اللہ عنھا کے وصال کے بعد بھی ان کے ساتھ قائم تھا۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ناجائز ہے اور وہ جو منقول ہُواکہ سیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ، نے حضرت بتول زہرارضی اﷲ تعالٰی عنہا کوغسل دیا، اوّلاً اسکی ایسی صحت ولیاقت حجّیت محلِ نظر ہے۔ ثانیاًدوسری روایت یوں ہے کہ اُس جناب کو حضرت اُمِ ّایمن رضی اﷲ تعالٰی عنہا نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی دائی نے غسل دیا۔ثالثاًبمعنی امر، شائع رابعاًاضافت فعل بسوئے مسبب غیر مستنکر اورحدیثِ علی ان وجوہ پر محمول کرنے سے تعارض مرتفع یعنی ام ایمن نے اپنے ہاتھوں سے نہلایا اورسیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ، نے حکم دیایا اسبابِ غسل کو مہیّافرمایا۔ خامساًمولٰی علی کرم اﷲ وجہہ کے لئے خصوصیت تھی اوروں کا قیاس اُن پر روا نہیں۔ہمارے علماء جو غسلِ زوجہ سے منع فرماتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ موت بسبب انعدام محل ،ملک نکاح ختم ہوجاتی ہے، تو شوہر اجنبی ہوگیا مگر نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا رشتہ ابدالآباد تک باقی ہے کبھی منقطع نہ ہوگا۔ اسی لئے منقول ہوا کہ سیّدنا علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ پر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس امر پر اعتراض کیا،حضرت مرتضٰی نے جواب میں ارشاد فرمایا: اما علمت ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال ان فاطمۃ زوجتک فی الدنیا والاٰخرۃ۱؎۔ کیا تمہیں خبر نہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ تیری بی بی ہے دنیا و آخرت میں۔ تو دیکھو اس خصوصیت کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ رشتہ منقطع نہیں۔یہ جواب نہ فرمایا کہ شوہر کو اپنی عورت کو نہلانا رواہے۔“
(ملخصا:فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ4)