بخاری شریف کی حدیث پاک کا ایک حصہ ہے”وما ترددت عن شئی انا فاعلہ ترددی عن النفس المؤمن،یکرہ الموت وانا اکرہ مساءتہ“ اس کی وضاحت کردیں؟
بخاری شریف کی حدیث پاک کے اس حصے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک رب العالمین ہے،وہ اپنے کسی فیصلے میں توقف نہیں فرماتا،ہاں!ایک معاملہ ہے جس میں توقف فرماتا ہےاور وہ ہے ولی اللہ کی روح قبض کرنا۔چنانچہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:” سبحان اﷲ! کیا نازو انداز والا کلام ہے یعنی میں رب ہوں اور اپنے کسی فیصلہ میں کبھی نہ توقف کرتا ہوں نہ تامل،جو چاہوں حکم کروں،مگر ایک موقعہ پر ہم توقف و تامل فرماتے ہیں وہ یہ کہ کسی ولی کا وقت موت آجائے اور وہ ولی ابھی مرنا نہ چاہے تو ہم اسے فورًا نہیں مار دیتے بلکہ اسے اولًا موت کی طرف مائل کردیتے ہیں جنت اور وہاں کی نعمتیں اسے دکھا دیتے ہیں اور بیماریاں پریشانیاں اس پر نازل کردیتے ہیں جس سے ا س کا دل دنیا سے متنفر ہوجاتا ہے اور آخرت کا مشتاق پھر وہ خود آنا چاہتا ہے اور خوش خوش ہنستا ہوا ہمارے پاس آتا ہے،یہاں تردد کے معنے حیرانی و پریشانی نہیں کہ وہ بے علمی سے ہوتی ہے رب تعالٰی اس سے پاک ہے بلکہ مطلب وہ ہے جو فقیر نے عرض کیا موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا واقعہ اس حدیث کی تفسیر ہے حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام کو موت و زندگی کا اختیار دیا جاتا ہے وہ حضرات اپنے اختیار سے خوشی خوشی موت قبول کرتے ہیں اور یار خنداں رود بجانب یار کا ظہور ہوتا ہے۔“
(مرآۃ المناجیح،جلد3،حدیث2266)