ایک شخص نے نشہ میں طلاق دی اور نشہ اترنے کے بعد کہنے لگا کہ نشہ میں طلاق نہیں ہوتی کیا واقعی نشہ میں طلاق نہیں ہوتی ؟
اگر کسی نے نشہ میں طلاق دی تو واقع ہوجائے گی البتہ کسی کو زبردستی نشہ کروایا گیا ہو اور پھر اس نے طلاق دی تو صحیح یہ ہے کہ واقع نہیں ہوگی، یہاں زبردستی سے مراد اکراہ شرعی ہے یعنی کسی کو قتل کردینے یا عضو ضائع کردینے کی صحیح دھمکی دی اور گمان غالب ہے کہ جو کہ رہا ہے کر گزرے گا۔ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے:’’عن أبی لبید، أن عمر، أجاز طلاق السکران‘‘ترجمہ:حضرت ابو لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نشے والے کی طلاق کو نافذ فرمایا۔
(الکتاب المصنف، جلد4،صفحہ76)
الاختیار میں ہے: ”طلاق السکران واقع“ ترجمہ: نشے والے کی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
(الاختیار لتعلیل المختار،جلد 3،صفحہ 124،دار الفکر)
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:” لوگ کسی کے اصرار کو بھی جبر کہتے ہیں، یہ جبر نہیں، اگر ایسے جبر سے نشہ کی چیز پی اور اس نشہ میں طلاق دی بلاشبہہ بالاتفاق ہوگئی، ہاں اگر جبر و اکراہ شرعی ہو۔ مثلا قتل یا قطع عضو کی دھمکی دے جس کے نفاذ پر یہ اسے قادر جانتا ہو، یا یوں کہ کسی نے ہاتھ پاؤں باندھ کر منہ چیر کر حلق میں شراب ڈال دی تو یہ صورت ضرور جبر کی ہے، اور تحقیق یہ ہےکہ اس نشہ میں اگر طلاق دے نہ پڑے گی۔“
(فتاوی رضویہ،جلد 12،صفحہ 389)