اگر کسی کا انتقال بیرون ملک ہوجائے تو کیا اسی ملک میں دفنانا بہتر ہے یا اپنے وطن لایا جائے بعض اوقات وطن لانے میں 15 20 دن بھی لگ جاتے ہیں؟

اگر کسی کا انتقال بیرون ملک ہوجائے تو کیا اسی ملک میں دفنانا بہتر ہے یا اپنے وطن لایا جائے بعض اوقات وطن لانے میں 15 20 دن بھی لگ جاتے ہیں؟

آدمی کا انتقال جس جگہ ہوا ہو مستحب یہی ہے کہ اسے اسی علاقے کے قبرستان میں دفن کیا جائے البتہ دوسرے شہر منتقل کرنے کے حوالے سےمختلف اقوال میں تطبیق کرکے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر جسم کے خراب ہوجانے کا اندیشہ ہو یا میت کی ایذا کا باعث بنتا ہو مثلا پوسٹ مارٹم کرنا،سرد خانے میں رکھنا تو منتقل کرنا مکروہ تحریمی ہے اور اگر ایسا خدشہ نہ ہو اور غرض صحیح ہو مثلا کسی نیک بندے کے قرب میں دفن کرنا ہو یا عزیزوں کو حاضری دینے میں آسانی ہو تو جائز ہے لیکن اس صورت میں چونکہ دفن میں تاخیر ہوگی اور یہ منتقل کرناسواری وغیرہ کے ذریعے ہوتا ہے اور میت کو سواری میں لے جانا مکروہ ہے لہذا ان وجوہات کی وجہ سے یہ مکروہ تنزیہی ہوگا۔ مراقی الفلاح میں ہے’’ ویستحب الدفن فی المقبرۃ محل مات بہ أو قتل‘‘یعنی مستحب ہے کہ جس جگہ فوت ہوا یا قتل ہوا اسے اسی علاقہ کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔

(مراقی الفلاح،صفحہ227،المکتبۃ العصریۃ)

مرقاۃ میں ہے:’’ردوا القتلی للوجوب، وذلک أن نقل المیت من موضع إلی موضع یغلب فیہ التغیر حرام، وکان ذلک زجرا عن القیام بذلک والإقدام علیہ، وہذا أظہر دلیل وأقوی حجۃ فی تحریم النقل، وہو الصحیح نقلہ السید‘‘یعنی حضور علیہ السلام کا شہداء کے متعلق فرمانا کہ انہیں اسی جگہ دفن کرو یہ وجوب کے لئے ہے۔یہ اس وجہ سے تھا کہ میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں جسم خراب ہونا غالب ہے جو حرا م ہے۔ اور یہ فرمانا زجرا تھا تاکہ انہیں وہی دفن کیا جائے۔ یہ زیادہ ظاہر اور قوی دلیل حجت ہے میت کے منتقل کرنے کی حرمت پر اور یہی صحیح ہے جسے سید نے نقل کیا۔

(مرقاۃ المفاتیح،جلد3،صفحہ1220،دار الفکر، بیروت)

اپنا تبصرہ بھیجیں