اکثر آپ لوگ کہتے ہیں کہ مروجہ قوالی جائز نہیں تو کون سی قوالی جائز ہے؟
جو قوالی جائز ہے اس کی علما وصوفیانے چند شرائط بیان کی ہیں کہ قوالی سننے والےکی طبیعت کا میلان حق کی طرف زیادہ ہو یا بالکل حق کی طرف ہو،قوالی کہنے والا مرد کامل ہو،سننے والے یاد حق سے خالی نہ ہوں،قوالی کے الفاظ لھو و لعب،عشق مجازی اور فحش وغیرہ باتوں سے خالی ہوں،آلہ موسیقی و مزامیر سےخالی ہو۔حضرت محمد بن مبارک بن محمد علوی کرمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”حضرت سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ سماع کی چار قسمیں ہیں حلال،حرام،مکروہ اور مباح۔اگر صاحب وجد کو حق کی طرف زیادہ میل ہو تو اس کے حق میں سماع مباح ہے اور اگر اس کا میلان طبیعت مجاز کی طرف بیشتر ہے تو سماع اس کے حق میں مکروہ ہے لیکن جب دل کا میل بالکل مجاز ہی کی طرف ہو تو اسے سماع حرام ہے اور جب میلان طبع بالکل حق تعالی کی طرف ہے تو حلال ہے۔۔۔سماع کے لئے چند چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔جب وہ چیزیں مہیا ہوں تو سماع مباح ہوتا ہے۔۔مسمع یعنی گانے والا مرد کامل ہونا چاہیے نہ تو لڑکا ہو نہ عورت اور مستمع یعنی سننے والے کے لئے یہ شرط ہے کہ یاد حق سے خالی نہ ہو اور مسموع یعنی جو چیز گائی جائے اور کہی جائے وہ فحش اور تمسخر سےخالی ہو اور آلہ سماع مزامیر ۔۔سماع میں یہ چیزیں موجود نہ ہوں پس جو سماع ان شرطوں کے ساتھ پایا جائے گا وہ حلال ہے ورنہ نہیں۔“
(سیر الاولیاء مترجم،صفحہ489،الکتاب گنج بخش لاہور)