والدین میں سے کس کا حکم ماننا زیادہ ضروری ہے؟
دین اسلام نے والدین کے حقوق کو کثرت سے بیان کیا ہے اور دونوں ہی کی اطاعت و فرمانبرداری کی تلقین فرمائی ہے یہاں تک کہ اللہ پاک نے اپنے حق کے ساتھ والدین کے حق کو بیان کیا لہذا انسان کو چاہیے کہ دونوں کے جائز حکم کی اپنے اپنے وقت میں اطاعت کرے البتہ کسی وقت دونوں کے حکم کی رعایت مشکل ہوجائے تو خدمت اور دینے میں والدہ کو ترجیح دے اور تعظیم میں والد کو۔بخاری شریف کی حدیث پاک ہے:” ایک شخص حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا یارسول اللہ! میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حقدار کون ہے؟ آپﷺنے فرمایا: تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہارا باپ۔“
(بخاری،،حدیث 5971 دار ابن کثیر،بیروت)
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”مگر اس زیادت کے یہ معنی ہیں کہ خدمت میں ، دینے میں باپ پر ماں کو ترجیح دے مثلاً سو روپے ہیں اور کوئی وجہِ خاص (خاص وجہ) مانعِ مادر نہیں تو باپ کو پچیس دے ماں کو پچھتر، یا ماں باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا تو پہلے ماں کو پلائے پھر باپ کو، یا دونوں سفر سے آئے ہیں پہلے ماں کے پاؤں دبائے پھر باپ کے ، وعلی ھذا القیاس، نہ یہ کہ اگر والدین میں باہم تنازع ہو تو ماں کا ساتھ دے کر معاذ اللہ باپ کے درپے ایذا ہو یا اس پر کسی طرح درشتی کرے یا اُسے جواب دے یا بے ادبانہ آنکھ ملا کر بات کرے ، یہ سب باتیں حرام اور اللہ پاک کی معصیت ہیں ، اور اللہ تعالٰی کی معصیت میں نہ ماں کی اطاعت نہ باپ کی، تو اسے ماں باپ میں کسی کا ایسا ساتھ دینا ہر گز جائز نہیں ، وہ دونوں اس کی جنّت ونار ہیں ، جسے ایذا دے گا دوزخ کا مستحق ہوگا والعیاذ باللہ تعالٰی، معصیت ِخالق میں کسی کی اطاعت نہیں ، اگر مثلاً ماں چاہتی ہے کہ یہ باپ کو کسی طرح کا آزار پہنچائے اور یہ نہیں مانتا تو وہ ناراض ہوتی ہے ، ہونے دے اور ہر گز نہ مانے ، ایسے ہی باپ کی طرف سے ماں کے معاملے میں ۔ انکی ایسی ناراضیاں کچھ قابلِ لحاظ نہ ہوں گی کہ یہ ان کی نِری زیادتی ہے کہ اس سے اللہ تعالٰی کی نافرمانی چاہتے ہیں بلکہ ہمارے علمائے کرام نے یوں تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں ماں کو ترجیح ہے جس کی مثالیں ہم لکھ آئے ، اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں کا بھی حاکم و آقا ہے ۔“
(فتاوی رضویہ،جلد24،رسالہ الحقوق لطرح العقوق)