زید کہتا ہے کہ مجھے امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کو ”اعلی حضرت“ کہنے سے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ ہم ابو بکر،عمر،عثمان و علی رضی اللہ عنھم کو حضرت کہتے ہیں اور ان کو اعلی حضرت؟
زید یا تو دین کی بدیہی باتوں سے انجان ہے یا انجان بننے کی کوشش کررہا ہے۔تعجب کی بات یہاں یہ ہے کہ زید نے اپنی اس تکلیف کے اظہار سے پہلے بھی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کواعلی حضرت کہا،تواولا زید پر اعتراض ہوتا ہے کہ اگر ایسا کہنا درست نہیں تو آپ کیوں کہتے رہے ہیں؟اگر تنقید کے ڈر سے ایسا کیا توواضح ہوتا ہے کہ زید ایک لا علم آدمی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب کسی کو کوئی لقب دیا جاتا ہے تو عموما اس دور کے متعلقہ افراد کے مابین دیا جاتا ہے،اگر ایسا نہ ہو تو زید سمیت بہت سارے اکابرین اس اعتراض کی زد میں آئیں گے۔امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو اعلی حضرت اپنے دور سے لے کر اب تک کےعلماء دین میں فائق ہونے کے اعتبار سے کہا جاتا ہے،بلکہ آپ کو تو علما نے مجتہد فی المسائل کا درجہ دیا ہے،اس اعتبار سے آپ مجتہدین کی ترتیب میں تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔کبھی کسی عام آدمی کا تصور بھی اس طرف نہیں جا سکتا کہ امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کو جو اعلی حضرت کہا جا رہا ہے تو آپ صحابہ کرام سے بھی بڑھ گئے معاذ اللہ!۔لہذا امام اہلسنت کو ”اعلی حضرت“کہنے میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔اللہ پاک نے قرآن پاک میں فتوی دینے کی نسبت اپنی طرف فرمائی کہ اللہ تمہیں فتوی دیتا ہے(النساء:127/176)،اب کوئی یہ کہے کہ کسی کو مفتی اعظم کہنے میں تکلیف ہوتی ہےکیونکہ فتوی تو اللہ پاک دیتا ہے،یقینا اس کا یہ اعتراض مردود و باطل ہے۔ہم سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ”صدیق اکبر“سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ”فاروق اعظم“سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ”غنی“سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو مولا علی کہتے ہیں،اس سے کسی کی یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ یہ خلفائے اربعہ انبیاء کرام علیھم السلام سے بڑھ گئے کہ ان انبیاء کرام کو صدیق اکبر،فاروق اعظم،غنی یا مولا کے القاب سے یاد نہیں کیا جاتا۔حضرت نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو امام اعظم اور حضرت عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو عوام و خواص سب ہی “امام اعظم” اور “غوث اعظم” کہتے ہیں،مگر کسی کی یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ حضرت صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بڑھ گئے۔