حدیث پاک میں ہے کہ جو طلوع شمس سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالے تو وہ اپنی نماز پوری کرلے“ حالانکہ فقہ حنفی میں یہ مسئلہ ہے کہ فجر کا سلام وقت کے اندر پھرنا ضروری ہے تو اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟
فقہ حنفی کا یہ مسئلہ کہ فجر کا سلام وقت کے اندر پھرنا ضروری ہے احادیث کے عین مطابق ہےکیونکہ نبی پاکﷺ نے طلوع شمس کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور وہ احادیث تواتر کی حد تک ہیں جب کہ ایسی روایات جس میں نماز پوری کرنے کا ذکر ہے وہ تواتر کی حد تک نہیں،لہذاثابت ہوا کہ اباحت والی روایات منسوخ ہیں۔بخاری شریف کی حدیث پاک ہے:”ینھی عن الصلاۃ عند طلوع الشمس و عند غروبھا“ترجمہ:نبی پاکﷺ طلوع شمس اور غروب شمس کے وقت نماز پڑحنے سے منع فرماتے تھے۔
(بخاری،حدیث1629)
علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”قد تواترت الاثارعن النبیﷺبالنہی عن الصلاۃ عند طلوع الشمس ما لم تواتر باباحۃ الصلاۃ عند ذلک،فدل ذلک علی ان ما کان فیہ الاباحۃ کان منسوخا بما کان فیہ التواتر بالنہی۔۔حقیقۃ النسخ ھنا انہ اجتمع فی ھذا الموضع محرم و مبیح،وقد تواترت الاخبار و الاثار فی باب المحرم ما لم تواتر فی باب المبیح وقد عرف من القاعدۃ ان المحرم و المبیح اذا اجتمعا یکون العمل للمحرم،ویکون المبیح منسوخا“ترجمہ:تحقیق طلوع شمس کے وقت نماز کی ممانعت پر نبی پاکﷺ سے احادیث تواتر کے ساتھ مروی ہیں جبکہ اباحت سے متعلق روایات متواتر نہیں،تو اس میں اس بات پر دلیل ہےکہ ممانعت سے متعلق روایات متواتر ہونے کے سبب اباحت سے متعلق روایات منسوخ ہیں۔۔یہاں حقیقت میں نسخ ہے کہ یہاں اباحت اور ممانعت کی روایات جمع ہوگئی ہیں اور ممانعت سے متعلق احادیث متواتر ہیں جبکہ اباحت سے متعلق نہیں اور یہ قاعدہ ہم سمجھ چکے ہیں کہ جب ممانعت اور اباحت جمع ہوجائے تو عمل ممانعت پر ہوتا ہے اور اباحت منسوخ ہوجاتی ہے۔
(عمدۃ القاری،جلد5،صفحہ49،دار احیاءالتراث)