جد اللمتار میں ہے: ” و يظهر لى ان من شرطها ان لا يزيد فى الكلام زيادة تخرجه عن الجواب، لان المجازاة جواب، فاذا زاد صار كلاما مبتدا كما اذا قالت يا قلتبان فقال ان كنت قلتبان ولم اكن مصليا فانت كذا كان تعليقا لا مجازاة“ ترجمہ: اور مجھ پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شرط میں سے ہے کہ کلام میں ایسی زیادتی نہ ہو جو اس کلام کو جواب ہونے سے نکال دے اس لئے کہ بدلے کے طور پر کہنا جواب ہے تو جب کلام میں زیادتی ہوئی تو یہ نیا کلام ہوگا جیسا کہ بیوی نے کہا کہ اے دیوث تو شوہر نے کہا اگر میں دیوث ہوں حالانکہ میں نماز نہیں پڑھتا تو تجھے طلاق یہ تعلیق ہے بدلہ نہیں۔

جد اللمتار میں ہے: ” و يظهر لى ان من شرطها ان لا يزيد فى الكلام زيادة تخرجه عن الجواب، لان المجازاة جواب، فاذا زاد صار كلاما مبتدا كما اذا قالت يا قلتبان فقال ان كنت قلتبان ولم اكن مصليا فانت كذا كان تعليقا لا مجازاة“ ترجمہ: اور مجھ پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شرط میں سے ہے کہ کلام میں ایسی زیادتی نہ ہو جو اس کلام کو جواب ہونے سے نکال دے اس لئے کہ بدلے کے طور پر کہنا جواب ہے تو جب کلام میں زیادتی ہوئی تو یہ نیا کلام ہوگا جیسا کہ بیوی نے کہا کہ اے دیوث تو شوہر نے کہا اگر میں دیوث ہوں حالانکہ میں نماز نہیں پڑھتا تو تجھے طلاق یہ تعلیق ہے بدلہ نہیں۔

(جد الممتار ، جلد 5، صفحہ 125)

اپنا تبصرہ بھیجیں