بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ فقہ حنفی میں خون سے فاتحہ لکھنا جائز ہے اور دلیل میں یہ عبارت پیش کرتے ہیں:”لو رعف فکتب الفاتحۃ بالدم علی جبھتہ وانفہ جاز للاستشفاء وبالبول ایضا“؟
سوال میں ذکر کی گئی عبارت نامکمل نقل کی گئی ہے اور اس کا مفہوم بھی وہ نہیں جو بیان ہوا ۔مکمل عبارت کو دیکھا جائے تو اس سے عدم جواز ہی واضح ہے کیونکہ ایک تو یہاں جان بچانے کی فرضی صورت بیان ہوئی ہےجبکہ شرائط پوری ہوں اور شرائط کا پورا ہونا ناممکن ہے لہذا یہ علاج بھی ناجائز ہوا۔اعلی حضرت امام اہلسنت شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی تفصیل سے دیا ہے اس کو خلاصہ کرکے بیان کرتا ہوں۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اصل عبارت مکمل نقل کی اور پھر فرمایا کہ جن فقیہ نے یہ مسئلہ بیان کیا وہ تین شرطوں کے ساتھ مشروط تھا:پہلا یہ کہ جان جانے کا خوف ہو،دوسرا یہ کہ اس تدبیر سے شفا ہونا معلوم ہو اور تیسرا یہ کہ اس کے علاوہ کوئی تدبیر شفا نہ ہو۔اہل انصاف غور کریں کہ اس مسئلہ کو تین شرطوں کے ساتھ مشروط کیا گیا اور شرع و عقل و عرف کا یہ قاعدہ ہے کہ ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں لہذا معترض کا تمام شرائط کو حذف کرکےمطلقا یوں کہنا کہ فقہ حنفی میں یہ مسئلہ ہے یقینا بددیانتی ہے،یہ تو ایسا ہوگیا کہ کوئی کافر کہہ دے کہ قرآن مجید میں سور کھانا حلال لکھا ہے اور دلیل میں یہ آیت پیش کردے فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ پھر کوئی مضطر ہو تو بغیر بغاوت و زیادتی کے اس پر مردار کھانے کا کوئی گناہ نہیں۔اگر اس کلام کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو علماکا مرجع ممانعت ہی ہے نہ کہ اجازت کیونکہ انہوں نے شرط بیان کی کہ جب اس سے شفا ہونا معلوم ہو حالانکہ اس علم کا کوئی ذریعہ نہیں،اگر علم کو یقین کے معنی میں لیں تو یقین تو مجرب اور معقول الاثر دواؤں میں بھی نہیں،اور اگر اس کو ظن کے معنی میں لیں تو بھی صرف موہوم ہی ہو سکتا ہے۔تو ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نہیں نکلا کہ یہ لکھنا جائز ہے بلکہ یہ نکلا کہ ناجائز ہے۔مزید یہ کہ معترض نے چوتھی صدی ایک فقیہ کا قول دھوکہ دیتے ہوئے سب شرائط اڑا کر طرح طرح کے بہتان کے ساتھ امام اعظم کی طرف منسوب کردیا اور دیگر کئی مستند کتابوں کی عبارات جو اس کے خلاف ہیں اس کو اڑا دیا۔
(ملخصا:فتاوی رضویہ،جلد23،صفحہ340 تا349)