ایک بندہ یہ اعتراض کرتا ہے کہ تم لوگ اشعار میں حضورﷺ کو تم یا تو کہتے ہو یہ بے ادبی ہے اس حوالے سے کیا جواب ہے؟
ادب اور بے ادبی کا معنی ومفہوم صحابہ کرام علیھم الرضوان بہتر جانتے تھے اور ان کو تو بارگاہ رسالت کا ادب خود رب تعالی سکھاتا تھا۔صحابہ کرام علیھم الرضوان سے منقول ایسے اشعار موجود ہیں جس میں انہوں نے حضورﷺ کے لئے ”ک“ ضمیر کا استعمال فرمایا ہے جو کہ واحد مذکر حاضر کے لئے آتی ہے اور اردو میں اس کا ترجمہ ”تو“ یا ”تم“ہی بنتا ہے(لیکن حضورﷺ کے لئے استعمال کی گئی ک ضمیر کا ترجمہ کرتے وقت ہم آپ ہی استعمال کریں گے)۔ یاد رہے کہ ادب و بےادبی کا دارومدار عرف پر ہے،بعض اوقات کوئی لفظ کسی جگہ پر بےادبی تصور کیا جاتا ہے اور کہیں نہیں۔حضورﷺ کے لئے اردو میں تو اور تم کے الفاظ مخاطب و نثر میں بے ادبی سمجھے جاتے ہیں اشعارو نعت میں نہیں کیونکہ اشعارمیں ردیف و قافیہ کی بڑی اہمیت ہے اور اس فن کی ساری خوبصورتی وزن میں پوشیدہ ہے،بعض اوقات وزن ”تو“ یا ”تم“ لانے سے صحیح ہوتا ہے اور کہیں ”آپ“ لانے سے،لہذا جہاں جیسا وزن ہوتا ہے شاعر وہاں ویسا ہی لفظ لاتا ہے،لہذا کسی بھی بنا پر یہ بے ادبی نہیں۔حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مشہور اشعار ہیں:”واحسن منک لم تر قط عینی!واجمل منک لم تلد النساء۔“
(سیرت مصطفی،صفحہ561)
جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے رکنِ مجلسِ شوریٰ و معروف ادیب ڈاکٹر شکیل اعظمی لکھتے ہیں:” نظم میں معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ چنانچہ قواعدِ اردو از مولوی عبدالحق میں صا ف درج ہے کہ نظم میں اکثر مخاطب کے لیے تو لکھتے ہیں یہاں تک کہ بڑے بڑے لوگوں اور بادشاہوں کو بھی اسی طرح خطاب کیا جاتاہے۔۔ اگرچہ لغوی اعتبار سے تو اور تیراکے الفاظ کم تر درجے والوں کے لیے وضع کیے گئے ہیں لیکن اہلِ زبان پیارومحبت کے لیے بھی ان کااستعمال کرتے ہیں اور کسی بھی زبان میں اہمیت اہلِ زبان کے محاورات اور استعمالات ہی کو حاصل ہوتی ہے اس لیے نعت ِ پاک میں ان کا استعمال قطعاً درست ہے اور اس میں کسی طر ح کی بے ادبی اور شرعی قباحت نہیں ۔“
‘(ماہنامہ اشرفیہ ،ستمبر2000ء مبارک پور ،صفحہ48/49)