اگر 2 یا 3 بچوں کا سبق ایک ہی رکوع پر ہواور ناظرہ کے یونٹ میں وہ ایک ساتھ مل کر بلند آواز میں پڑھیں تو ایسا کرنا کیسا؟اور اگر قاریہ ایک آیت کو سکھانے کے لئے بلند آواز سے پڑھے اور سارے بچے دہرائیں تو ایسا کرنا کیسا؟
اگر چند بچے مل کر بلند آواز میں اپنا سبق پڑھیں تو اس میں حرج نہیں کہ یہ تعلیم قرآن ہے تلاوت قرآن نہیں،لیکن اگر وہ قاریہ کو مل کر اپنا سبق سنائیں تو ایسا کرناجائز نہیں کہ قاریہ کے لئے بغور تینوں کا جدا جداسبق سننا ممکن نہیں،ہاں اگر چند مل کر سبق دہرائیں اور ایک سبق سنائے تو اس میں حرج نہیں جبکہ قاریہ سبق سنانے والے کا سبق غور سے سنے۔اسی طرح قاریہ کا ایک آیت سکھانے کی غرض سے بلند آواز میں پڑھنااور بچوں کا مل کر دہراناجائز ہے کہ یہ بھی تعلیم قرآن ہے۔مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”خیال رہے کہ قراءت قرآن کا حکم اور ہے، تعلیم قرآن کا کچھ ،اور بہت سے بچے مل کر قرآن یاد کر سکتے ہیں اگرچہ آواز اونچی ہو کہ وہ تعلیم قرآن ہےقراءت قرآن نہیں۔
(خرائن العرفان،صفحہ280)
فتاوی رضویہ میں ہے:” پس صورت اولٰی میں جہاں مقصود تلاوت وختم قراٰن ہے۔ نہ حاضرین کو سنانا اگرسب آہستہ پڑھیں کہ ایک کی آواز دوسرے کو نہ جائے تو عین ادب واحسن واجب ہے ۔ اس کی خوبی میں کیا کلام، اور اگر چند آدمی بآواز پڑھ رہے ہیں یوں ہی قاری کے پاس ایک یا چند مسلمان بغور سن رہے ہیں اور ان میں باہم اتنا فاصلہ ہے کہ ایک کی آواز سے دوسرے کا دھیان نہیں بٹتا تو قول اوسع پر اس میں بھی حرج نہیں اوراگر کوئی سننے والانہیں، یا بعض کی تلاوت بعض اشخاص سن رہے ہیں بعض کی کوئی نہیں سنتا یا قریب آوازیں مختلف ومختلف ہیں کہ جدا جدا سننا میسرہی نہ رہا تو یہ صورتیں بالاتفاق ناجائز و گناہ ہیں اور صورت ثانیہ میں جہاں مقصود سنانا ہے اگر قول احوط پر عمل کیجئے تو چند آدمیوں کا معا آواز سے پڑھنا صریح حرام ہے اوراگر توفیق مذکور پر نظر کی جائے تو جب بھی یہ صورت سب پر لزوم خاموشی کی ہے اور اگر اس سے قطع نظر کرکے قول اوسع ہی لیجئے تاہم اس صورت کے بدعت وشنیع ہونے میں کلام نہیں۔“
(فتاوی رضویہ،جلد23،صفحہ353)