اگر کوئی شخص دکاندار سے یوں بیع کرے کہ پچاس ہزار لو اور میں پورے سال میں آپ سے دس من آٹا خریدوں گا دوران سال ریٹ جو بھی ہو میں فی من 5 ہزار ہی دوں گا تو ایسا کرنا کیسا؟

اگر کوئی شخص دکاندار سے یوں بیع کرے کہ پچاس ہزار لو اور میں پورے سال میں آپ سے دس من آٹا خریدوں گا دوران سال ریٹ جو بھی ہو میں فی من 5 ہزار ہی دوں گا تو ایسا کرنا کیسا؟

سوال میں ذکر کیا گیا طریقہ بیع سلم کے طور پر درست ہو سکتا ہے جبکہ بیع سلم کی تمام شرائط پائی جائیں۔سوال میں چند شرائط مذکور ہیں مثلا ریٹ طے ہونا،راس المال کی جنس معلوم ہونا، میعاد مقررہونا،مسلم فیہ کی جنس معلوم ہونا،موزونی ہونا۔مزید مسلم فیہ(آٹا)کی نوع اور اس کا وصف یعنی کوالٹی بھی متعین کرلی جائے اور راس المال یعنی رقم اس مجلس میں بیچنے والے کے سپرد کردی جائے،آٹادینے کا مقام طے ہو اور آٹا خریداری کے وقت سے ختم میعاد تک دستیاب رہے تو اس طرح سودا کرنا درست ہوگا۔یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ سودا اسی مجلس میں کرلے یعنی یوں کہے کہ میں نے 50ہزار کے عوض آپ سے(اوپر بیان کردہ شرائط کے مطابق)آٹا خریدا،یوں نہ ہو کہ میں ان پیسوں کے بدلے بعد میں خریدوں گا۔فتاوی رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:” اگر گیہوں خریدے اور قیمت پیشگی دی ہے تو بیع سلم ہے اگر سب شرائط بیع سلم کے ادا کرلی ہیں تو جائز ہے اگرچہ روپے کے دس من گیہوں ٹھہر جائیں ورنہ حرام ہے ۔“

(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ335)

اپنا تبصرہ بھیجیں