ایک شخص میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ گیا اور اس نے عمرہ کی ادائیگی سے پہلے احرام اتار دیا پھر اس نے مسجد عائشہ جا کر نیت کی اور عمرہ کیا اس کے لئے کیا حکم ہے؟
اس شخص پر لازم تھا کہ پہلے عمرہ ادا کرتا،بہر حال اگر اس نے ایسا نہیں کیا اور سلا ہوا لباس یا کوئی بھی ممنوع احرام اس نیت سے کیا کہ میں احرام سے باہر ہوں تو اس پر ایک دم لازم ہے اور اگر یہ نیت نہیں تھی تو احرام کی جتنی خلاف ورزیاں ہوں گی اتنے کفارے یا دم لازم ہوں گے اور عمرہ کی قضا بہر صورت لازم ہوگی۔پھر اگر اس نے احرام سے باہر آنے کی نیت کرلی تھی اور مسجد عائشہ جا کر عمرہ کرلیا تو وہ عمرہ درست ہوگیا اور اگر باہر آنے کی نیت نہیں تھی تو احرام پر احرام باندھنے کا جرم ہوا اور اس پر دم لازم ہے البتہ پہلا عمرہ چھوڑ کر دوسرا عمرہ کیا تو احرام پر احرام باندھنے کا دم رفض عمرہ کے سبب ساقط ہوگیا لیکن رفض عمرہ کا دم دونوں صورتوں میں لازم ہوگا اور عمرہ کی قضا بہر حال کرنی ہوگی۔مناسک ملا علی قاری میں ہے:”وکل من لزمہ رفض العمرۃ فعلیہ دم وقضاء عمرہ“یعنی:اور ہر وہ شخص جس پر عمرہ کا چھوڑنا لازم آگیا اس پر دم اور عمرہ کی قضا ہے۔
(مناسک ملا علی قاری،صفحہ419)
اسی میں ہے:”وکل من لزمہ الرفض فلم یرفض فعلیہ دم الجمع وکل من علیہ الرفض یحتاج الی نیۃ الرفض الا من جمع بین العمرتین قبل السعی للاولی ترتفض احداھما من غیر نیۃ الرفض“یعنی:اور ہر وہ جس پر رفض عمرہ لازم ہوگیا اور اس نے رفض نہ کیا تو اس پر جمع احرام کا دم لازم ہوگا اور جس پر رفض لازم ہے اسے رفض کی نیت کرنا ضروری ہے ہاں جس نے دو عمروں کا احرام پہلے کی سعی سے قبل جمع کرلیا تو بغیر نیت ایک رفض ہوگیا۔
(ایضا)