پیدائش کے بعد بچے کے بال مونڈنا اور صدقہ کرنا

پیدائش کے بعد بچے کے بال مونڈنا اور صدقہ کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر بچہ پیدا ہو تو اس کے سر کے بال کاٹنا ضروری ہے کیا اور نہ کاٹیں تو کوئی مسئلہ تو نہیں ؟ اور بال کاٹ لیے تو ان کے وزن کے برابر صدقہ کرنا ضروری ہے کیا ؟

User ID:سیٹھ حامد ناصر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اس بارے میں حکم شرع یہ ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے ساتویں دن اس کا نام رکھنا اس کے بال کاٹنا اور بالوں کے وزن کے برابر سونا یا چاندی صدقہ کرنا مستحب ہے کریں تو ثواب ہے نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں ۔ترمذی میں ہے:سمرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا :’’لڑکا اپنے عقیقہ میں گروی ہے ساتویں دن اوس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اور اوس کا نام رکھا جائے اور سر مونڈا جائے۔ ‘‘

(’’ جامع الترمذي ‘‘ ،کتاب الأضاحی،باب من العقیقۃ،الحدیث: ۱۵۲۷ ،ج ۳ ،ص ۱۷۷۔)

جامع ترمذی میں ہے: رسول اﷲﷺنے حضرت حسن رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی طرف سے عقیقہ میں بکری ذبح کی اور یہ فرمایا کہ’’ اے فاطمہ اس کا سرمونڈا دو اور بال کے وزن کی چاندی صدقہ کرو‘‘ ہم نے بالوں کو وزن کیا تو ایک درہم یا کچھ کم تھے۔

(جامع ترمذی،باب العقیقۃ بشاۃ، الحدیث: ۱۵۲۴ ، ص ۱۷۵۔)

صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ساتویں دن اوس کا نام رکھا جائے اور اوس کا سرمونڈا جائے اور سر مونڈنے کے وقت عقیقہ کیا جائے۔ اور بالوں کو وزن کر کے اوتنی چاندی یا سونا صدقہ کیا جائے۔

(بہار شریعت،جلد3،حصہ15،صفحہ357،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ

18جمادی الاخریٰ 1444ھ/ 6دسمبر 2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں