باپ صرف بیٹوں کوزمین دے توبیٹیوں کاحق

سوال:ایک شخص فوت ہواجسکے چھ بیٹے تھے اس نے سب کوچھ چھ کنال زمین دی لیکن بیٹیوں کونہ دی۔ اب ایک بیٹاپوچھ رہاہے کہ والد صاحب نے توتقسیم میں بہنوں کوزمین نہ دی تھی لیکن میں اپنے حصے میں سے بہنوں کودوں توکتناحصہ بنے گا؟

User ID: Mujtaba Ahmed

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اگرباپ نےزندگی میں تقسیم کاری کرکے بیٹوں کوقبضہ دے دیاتھاتوہبہ(gift) تام(مکمل)ہوگیاتھااورملکیت (ownership) منتقل(trasfer) ہو گئی تھی اب بہنوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔تاہم اس صورت میں اگرباپ کی اورکوئی جائیداد نہیں تھی اوربیٹیوں کومحروم کرنے کے لئے اس نے یہ کیاتھاتویہ ناجائزعمل تھاجسکے باعث باپ گناہگارہوا۔اوراگر باپ نے اسکی وصیت کی تھی یامرض الموت میں یہ تقسیم کاری کی تھی تویہ وصیت باطل ہے کہ وارث کے لئے وصیت معتبر نہیں انکاحصہ قران وحدیث میں متعین ہے۔

حدیث پاک میں ہے: سمعت رسول الله ﷺ يقول في خطبته عام حجة الوداع: «إن الله تبارك وتعالى قد أعطى لكل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث۔۔۔ترجمہ:حضورﷺکوحجۃ الوداع میں یہ فرماتے سناکہ اللہ تعالی نے ہر حقدارکو اسکاحق دے دیاتووارث کے لئے وصیت نہیں۔(ترمذی،کتاب الوصایا،ج4،ص433،حدیث:2120،مصر)

شامی میں ہے: (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل۔ (شامی،کتاب الوصایا،جلد5،ص690،بیروت)

عالمگیری میں ہے: ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة۔ (ہندیہ،کتاب الوصایا،جلد6،ص90،بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے: ہبہ مرضِ موت کامثل وصیت کے ہے اوروصیت وارث کے لئے وقت وجود دیگرورثہ کے بلااجازت اوروں کے نافذ نہیں۔ (فتاوی رضویہ،کتاب الوصایا،جلد25،ص377،لاہور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

تیموراحمدصدیقی

24جمادی الثانی 1445ھ/07جنوری 2024 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں