بوڑھے باپ کے موئے زیر ناف صاف کرنا

بوڑھے باپ کے موئے زیر ناف صاف کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میرے والد صاحب بہت ضعیف ہیں کہ اپنے موئے زیر ناف صاف نہیں کر سکتے تو کیا میں ان کے موئے زیر ناف صاف کر سکتا ہوں ؟

User ID:عزیر ظہیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اس بارے میں حکم شرع یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے زیرِ ناف بال خود صاف نہ کر سکتا ہو تو ضرورتا ستر کو دیکھے اور چھوئے بغیر دوسرے سے صاف کروانے کی اجازت ہے لہذا آپ اپنے والد صاحب کے موئے زیر ناف انہیں دو شرائط ( ستر کو دیکھے اور چھوئے بغیر ) کے ساتھ صاف کر سکتے ہیں ۔ فتاوی تاتارخانیہ،فتاوی عالمگیری،محیط برھانی،بحرالرائق اورالبنایۃ شرح الہدایۃ اورردالمحتارمیں ہے: (واللفظ للاول)’’وذكر الفقيه أبو الليث رحمه اللہ في «فتاواہ» في باب الطهارات؛ قال محمد بن مقاتل الرازي: لا بأس بأن يتولى صاحب الحمام عورة إنسان بيده عند التنوير إذا كان يغض بصره كما أنه لا بأس به إذا كان يداوي جرحاً أو قرحاً، قال الفقيه: وهذا في حالة الضرورة لا في غيرهاوینبغی لکل احدان یتولی عانتہ بیدہ اذاتنور‘‘ ترجمہ: اورفقیہ ابواللیث علیہ الرحمۃ نے اپنے فتاوی میں باب الطہارات میں ذکرفرمایاہے کہ محمدبن مقاتل رازی نے کہا:اس میں کوئی حرج نہیں کہ حمام والاکسی شخص کی شرمگاہ پربال صفاپاوڈراپنے ہاتھ سے لگائے جبکہ اپنی آنکھوں کوبندکرلےجیساکہ جب کسی زخم یاپھوڑے کاعلاج کرناہو تواس صورت میں شرمگاہ کوچھوناجائزہوجاتاہے ،فقیہ ابواللیث علیہ الرحمۃ نے فرمایا:اوریہ ضرورت کی حالت میں ہے بغیرضرورت کے اجازت نہیں اورہرایک کوچاہیے کہ وہ اپنی زیرناف پراپنے ہاتھ سے بال صفاپاوڈرلگائے ۔

(فتاوی تاتارخانیہ،کتاب الکراھیۃ،الفصل:مایحل لرجل النظرالیہ،جلد18،صفحہ 99،مطبوعہ کوئٹہ)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ

25رجب المرجب 1444ھ/ 6فروری 2024 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں