مباہلہ کی تعریف اور وضاحت

مباہلہ کی تعریف اور وضاحت

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ مباہلہ کرنے سے کیا مراد ہے؟

User ID:نعمان عطاری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اس بارے میں حکم شرع یہ ہے کہ دو مدمقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پر ہو تواللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے یہ مباہلہ کہلاتا ہے۔ اس کاتذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ- ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ ترجمہ:پھر اے حبیب! تمہارے پاس علم آجانے کے بعد جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں جھگڑا کریں تو تم ان سے فرما دو: آ ؤ ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کواور اپنی عورتوں کواور تمہاری عورتوں کواور اپنی جانوں کواور تمہاری جانوں کو (مقابلے میں ) بلا لیتے ہیں پھر مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالتے ہیں۔(اٰل عمران،الآیۃ٦١) اس کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: مباہَلہ کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ دو مدمقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پر ہو تواللہ تعالیٰ تجھے ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے۔ اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ مناظرہ سے اوپر درجہ مباہلہ کا ہے یعنی مخالف ِدین کے ساتھ بد دعا کرنی۔ دوسرے یہ کہ مباہلہ دین کے یقینی مسائل میں ہونا چاہیے نہ کہ غیر یقینی مسائل میں لہٰذا اسلام کی حقانیت پر تو مباہلہ ہوسکتا ہے۔ حنفی شافعی اختلافی مسائل میں نہیں۔

(تفسیر صراط الجنان ،اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۶۱، ۱)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ

28جمادی الاخریٰ 1444ھ/ 15دسمبر 2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں