وقف جگہ پر ذاتی رہائش کی صورتیں
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مسجد یا مدرسہ وغیرہ کو جگہ وقف کرنے کے بعد کیا واقف اس میں اپنے رہائش رکھ سکتا ہے؟اگر اس شرط کے ساتھ وقف کرے کہ جب تک زندہ ہوں میں اس میں رہائش رکھوں گا تو ا س صورت میں میں کیا حکم ہوگا؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
وقف کرنے کے بعد واقف وقف شدہ جگہ میں رہائش نہیں رکھ سکتا۔ اگرواقف یہ شرط رکھے کہ جب تک زندہ ہوں میں اس میں رہائش اختیارکروں گا،تویہ شرط باطل ہوتی ہے اوراسے وقف میں رہائش رکھناحرام ہوگا ۔ البتہ اگر وقف اہلی ہوتو اجازت ہوسکتی ہے ۔وقف اہلی کا طریقہ یہ ہے کہ یوں وقف کیا جائےجب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک یہ مجھ پروقف ہے اورمیرے بعدمسجد کےلئے وقف ہے ۔ وقف اہلی کے علاوہ اگر واقف یا کسی بھی غیر متعلقہ شخص نے وقف کی جگہ کواپنے ذاتی تصرف میں رکھا تو اس پر لازم ہے کہ وہ توبہ کرے اور فورا اس جگہ کو خالی کرے اور جتنا عرصہ وقف کی جگہ استعمال کی ہے اس کا کرایہ دے۔
فتاوی خلاصہ میں ہے
”رجل جعل فرسہ للسبیل علی ان یمسکہ مادام حیاان امسکہ للجھادلہ ذٰلک لانہ لولم یشترط کان لہ ذلک لان لجاعل السبیل ان یجاھد علیہ وان ارادہ ان ینتفع بہ غیر ذلک لم یکن لہ ذلک وصح جعلہ للسبیل“
ترجمہ: ایک شخص نے اپنا گھوڑا فی سبیل اﷲوقف کیا اس شرط پر کہ جب تک وہ زندہ ہے گھوڑے کو اپنے پاس روکے رکھے گا، اگر تو اس نے جہاد کےلئے روکا ہے تو جائز ہے کیونکہ اگر وہ یہ شرط نہ بھی کرتا تب بھی اسے یہ حق تھا اس لئے کہ گھوڑے کو فی سبیل اﷲوقف کرنے والا بھی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اس پر سوار ہوکر جہاد کرے، اور اگر اس کا ارادہ یہ ہے کہ وہ جہاد کے علاوہ کوئی ا ور نفع حاصل کرے گا تو اس کو یہ اختیار نہیں، تاہم گھوڑے کو فی سبیل اﷲوقف کرنا صحیح ہوگیا۔ (فتاوی خلاصہ ،ج2،حصہ 4،ص418،مکتبہ کوئٹہ)
امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:
”استعمال مذکور حرام ہے، چندہ دہندہ کرے یا کوئی، مال وقف خود واقف کو حرام ہے کہ اپنے صرف لائے، یہاں تک کہ اگر نفس وقف غیر اہلی میں اس نے شرط کرلی ہو کہ اپنی حیات تک میں اپنے صرف میں لاسکوں گا، تو شرط باطل ہے اور تصرف حرام۔“ (فتاوی رضویہ،جلد16،صفحہ452،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
فتاوی رضویہ میں ہے:
”یا وقف اہلی کرے کہ وقف کا بھی ثواب پائے اور وارث بھی محروم نہ ہوں یعنی یوں وقف کرے کہ یہ جائداد میں نے اپنی زندگی بھر اپنے نفس پر وقف کی اور اپنے بعد اپنے ورثہ پر اور جب وہ اور اس کا وارث کوئی نہ رہے تو فلاں فلاں مصارف خیر پر۔“
(فتاوی رضویہ،جلد16،صفحہ251،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
درمختارمیں ہے
”(یفتی بالضمان فی غصب عقار الوقف وغصب منافعہ) أو إتلافہا کما لو سکن بلا إذن أو أسکنہ المتولی بلا أجر کان علی الساکن أجر المثل “
ترجمہ:فتوی اس پرہے کہ وقف کی جائداداوراس کے منافع غصب کرنے یامنافع تلف کرنے کی صورت میں ضمان لازم ہوگاجیساکہ وہ بغیر اجازت کے رہائش اختیارکرے یامتولی اس کوبغیراجرت کے رہائش دے تورہائش رکھنے والے پراجرت ِ مثل لازم ہوگی۔(درمختارمع ردالمحتار،جلد4،صفحہ408،دارالفکر،بیروت)
امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اور اگر۔۔اس متولی نے غاصبانہ اشتراک کر رکھا ہے تو فرض ہے کہ اسے تولیت سے خارج کردیں اور وہ نشانات جو اس نے اپنے اشتراک کی علامت بنائے ہیں سب مٹادیں اور شہتیر وغیرہ جو کچھ اس کا مسجد کی دیوار پر رکھا ہے سب گرادیں، اور جتنے برسوں رکھا رہا اتنے کا کرایہ دیوار مسجد کا اس سے وصول کریں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد16، صفحہ448، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم
کتبہ
ابواحمد مفتی محمد انس رضا قادری
02ذو الحجہ1444ھ21جون 2023ء