زوجہ ،بیٹا اور تین بیٹیوں میں جائیداد تقسیم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ آفتاب احمد کا وصال ہوگیا، اس نے اپنے ورثا میں ایک بیوہ (مسرت بانو) چھوڑی۔ نیز ایک بیٹا (حسن) اور تین بیٹیاں (نیلم، سوہنیا، عالیہ) چھوڑیں، یہ سب اولاد عاقل بالغ ہیں جو کہ پہلی بیوی سے ہے، جس کو بہت سال پہلے طلاق دے دی ہوئی تھی۔ ان سب کے علاوہ مرحوم کا ایک بھائی ہے جبکہ والدین وغیرہ میں سے کوئی زندہ نہیں۔ مرحوم کے پاس جائداد کے طور پر ایک مکان نیز مہنگے ملبوسات ، استعمال کی گھڑیاں، کام کاج کا سامان وغیرہ تھا۔ مرحوم اپنی زندگی میں اپنی بیوی کو کہا کرتا تھا کہ میرا یہ گھر بچوں کو بیچنے نہ دینا بلکہ میری خواہش ہے کہ میرے اور تمہارے مرنے کے بعد اس گھر کو مدرسہ بنا دیا جائے نہیں تو اسے رینٹ پر دے کر اس کا آدھا کرایہ بچے آپس میں تقسیم کر لیا کریں اور آدھا راہِ خدا میں صدقہ کر دیا کریں۔ لیکن مرحوم نے باقاعدہ کوئی وصیت وغیرہ نہیں بنائی ہوئی تھی۔ ابھی تک کے لیےمرحوم کی بعض چیزیں بچوں نے لی ہیں جیسے کہ کسی نے مہنگی گھڑی لی اور کسی نے جیکٹس وغیرہ لیکن ابھی باقاعدہ ترکہ تقسیم نہیں ہوا۔ براہِ کرم! قرآن و سنت کی روشنی میں ارشاد فرمائیں کہ مرحوم کی جائیداد میں کس کا کتنا حصہ بنتا ہے؟ نیز کیا ایسا کرنا درست ہوگا کہ بقیہ سب ترکہ تو تقسیم کر لیا جائے لیکن مکان کو ابھی نہ بیچا جائے بلکہ مرحوم کی بیوہ اس میں رہتی رہیں جب ان کا انتقال ہو جائے تو یہ مرحوم کی خواہش کے مطابق وصیت کر جائیں چونکہ یہاں کا قانون انہیں یہ اجازت دیتا ہے؟ سائل: مسرت بانو (لندن، یوکے)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
صورتِ مستفسرہ میں بشرطِ صدق سائل، حکم شرعی یہ ہے کہ امورِ متقدمہ علی الارث (یعنی کفن دفن کے خرچے، پھر میت کے اوپر کوئی قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد) مرحوم (آفتاب احمد) کی کل جائداد و سامان (مثلاً گھر، کپڑے، استعمال کی اشیا وغیرہ) کے کل 40 حصے کیے جائیں گے۔ جن میں سے پانچ حصے مرحوم کی بیوہ (مسرت بانو) کو، نیز چودہ حصے اس کے بیٹے (حسن) کو جبکہ بیٹیوں (نیلم، سوہنیا، عالیہ) میں سے ہر ایک کو سات سات حصے ملیں گے۔ اس کو عشاریائی نظام میں یوں سمجھیں کہ مرحوم کی تمام پراپرٹی و سامان وغیرہ میں 12.50 فیصد بیوہ کا، 35 فیصد بیٹے کا، 17.50 فیصد ہر ایک بیٹی کا حصہ ہے۔ نیز سابقہ مطلقہ اور مرحوم کے بھائی کو ان کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
جہاں تک مرحوم کی خواہش کا تعلق ہے تو اولاد کو چاہیے کہ ممکنہ صورت میں مرحوم کی یہ خواہش پوری کریں کہ اُس مکان کو بیچنے کی بجائے نیکی کے کاموں میں استعمال کریں، لیکن یہ خواہش پوری کرنا فرض نہیں، محض ترغیب ہے کہ اس سے مرحوم کو راحت ملے گی نیز بھلائی کے کاموں میں اس کا استعمال مرحوم کے لیے بھی باعث ثواب ہوگا۔ البتہ سوال کے آخر میں جو کہا گیا کہ مرحوم کی بیوہ اپنے انتقال سے پہلے اس گھر کے متعلق وصیت کر جائے تو یاد رہے! اُسے اس بات کی اجازت نہیں کیونکہ وصیت اسی مال کے متعلق کی جا سکتی ہے جو موصی (وصیت کرنے والے) کا اپنا ہو یعنی اس کی ملک ہو جبکہ یہ مکان مکمل اس کی ملکیت میں نہیں بلکہ بچوں کا حق بھی اس میں شامل ہے۔ ہاں! اگر تمام بچے اس مکان پر سے اپنا اپنا حق اس سوتیلی ماں کو ہبہ کر دیں تو یہ مکمل مکان کی وصیت کر سکتی ہے، وگرنہ صرف اپنے حق کے متعلق ہی وصیت کرنے کی مجاز ہو گی۔
اللہ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتاہے
﴿فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ تُوْصُوْنَ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ﴾
ترجمہ کنزالایمان: پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان (بیویوں ) کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں، جو وصیت تم کر جاؤ اور دین نکال کر۔(پارہ 4، سورۃ النساء 4، آیت نمبر 12)
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ ۗلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾
ترجمہ کنز الایمان: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر۔(پارہ 4، سورۃ النساء 4، آیت نمبر 11)
وقار الملّت مفتی اعظم پاکستان علامہ محمد وقار الدین قادری (المتوفی: 1413ھ/1993ء) لکھتے ہیں:
”سوتیلی والدہ (مرحوم کی دوسری بیوی) جب والد (مرحوم شخص) کے انتقال کے وقت موجود تھیں تو بیوی کا آٹھواں حصہ تھا۔ اس کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ اس کے ورثا کو ملے گا۔ سوتیلے بیٹوں کا اس میں کچھ حصہ نہیں۔ ہاں ! یہ اپنے والد کی جائیداد آپس میں برابر تقسیم کر لیں گے۔“(وقار الفتاوی، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 418، مطبوعه: بزم وقار الدین کراچی)
فتاوی فقیہ ملت میں ہے:
”اگر واقعی حمید اللہ (مرحوم شخص) نے اپنی پہلی بیوی قمر النساء کو طلاق دی پھر مدت مذکورہ (اٹھائیس سال) کے بعد (حمید اللہ کا) انتقال ہو ا تو وہ (مطلقہ قمر النساء) حمید اللہ کی وارث نہیں، اور اس کی جائداد سے قمر النساء کا کوئی حق نہیں۔“(فتاوی فقیه ملت، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 378، مطبوعه: شبیر برادرز)
مسئلے کی صورت درج ذیل ہوگی۔
مسئلہ از: 8 x 5= 40آفتاب احمد
می
زوجہ (مسرت)بیٹا (حسن) بیٹی (نیلم)بیٹی (سوہنیا)بیٹی (عالیہ)
8/1عصبہ
1
514777
و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
مولانا احمد رضا عطاری حنفی
12 صفر المظفر 1445ھ / 29 اگست 2023ء