طلاق رجعی کے رجوع میں گواہوں کا حکم

طلاق رجعی کے رجوع میں گواہوں کا حکم

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ طلاق رجعی کے بعد کیا رجوع کے وقت گواہوں کا ہونا ضروری ہے؟

User ID:جوہر علی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

پوچھی گئی صورت میں حکم شرع یہ ہے کہ رجوع کے وقت گواہوں کا ہونا ضروری نہیں ہے بغیر گواہوں کے بھی رجوع ہو جائے گا البتہ طلاق رجعی کے بعد رجوع کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ دو گواہوں کے سامنے زبان کے ساتھ رجوع کرے اور بیوی کو اس کی خبر بھی دے دے اگر اس طریقے پر رجوع نہ کیا تب بھی رجوع ہو جائے گا لیکن یہ طریقہ خلاف سنت و مکروہ ہے ۔رجوع کے طریقے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فتاویٰ عالمگیری میں فرماتے ہیں:’’و ھی علی ضربین،سنی و بدعی۔(فالسنی)ان یراجعھا بالقول و یشھد علی رجعتھا شاھدین و یعلمھا بذلک،فاذا راجعھا بالقول نحو ان یقول لھا راجعتک او راجعت امراتی و لم یشھد علی ذلک او اشھد و لم یعلمھا بذلک فھو بدعی مخالف للسنۃ و الرجعۃ صحیحۃ،و ان راجعھا بالفعل مثل ان یطاھا او یقبلھا بشھوۃ او ینظر الی فرجھا بشھوۃ فانہ یصیر مراجعا عندنا الا انہ یکرہ لہ ذلک و یستحب ان یراجعھا بعد ذلک بالاشھاد،کذا فی الجوھرۃ النیرۃ‘‘رجعت کی دو قسمیں ہیں،سنت اور بدعت۔سنت یہ ہے کہ کسی لفظ سے رجوع کرے اور اپنے رجوع کرنے پر دو شخصوں کو گواہ بنائے اور عورت کو بھی اس کی خبر کردے۔تو جب اس نے قول سے رجوع کیا،مثلاً :اس سے کہا:میں نے تم سے رجوع کیا یا میں نے اپنی عورت سے رجوع کیا،مگر اس پر گواہ نہ بنائے یا گواہ بنائے، مگر عورت کو اس کی خبر نہ دی،تو یہ بدعت و خلافِ سنت ہے ،مگر رجوع صحیح ہے،اور اگر فعل سے رجوع کیا ،مثلاً: اُس سے وطی کی یا شہوت کے ساتھ بوسہ لیا یا اُس کی شرمگاہ کی طرف شہوت سے نظر کی، تو ہمارے نزدیک وہ رجوع کرنے والا ہو جائے گا، لیکن اس کے لیے ایسا کرنا، مکروہ ہے۔مستحب یہ ہے کہ اس کے بعد گواہ بنا کر دوبارہ رجوع کرے۔اسی طرح جوہرہ نیرہ میں ہے۔

(فتاوٰی عالمگیری ،ج1،ص468،مطبوعہ کوئٹہ)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ

15ربیع الثانی 5144 ھ31 اکتوبر 2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں