سید زادے کو زکاۃ دینے کا حکم
سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ سید زادے کو زکاۃ دینا کیسا ہے؟
User ID:ہمایوں صدیقی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
پوچھی گئی صورت میں حکم شرع یہ ہے کہ سید زادے کو زکاۃ نہیں دے سکتے کیونکہ زکاۃ مال کی میل کچیل ہے اور اس لیے بنو ھاہاشم پر زکاۃ حرام کر دی گئی البتہ نفلی صدقات سادات کو دینے میں حرج نہیں کہ یہ ان کے لیے تحفہ ہے۔ ہدایہ میں ہے:”ولا تدفع إلى بني هاشم لقوله عليه الصلاة والسلام “يا بني هاشم إن الله تعالى حرم عليكم غسالة الناس وأوساخهم وعوضكم منها بخمس الخمس”بخلاف التطوع لأن المال ههنا كالماء يتدنس بإسقاط الفرض أما التطوع فبمنزلة التبرد بالماء“ترجمہ: ”صدقاتِ واجبہ بنی ہاشم کو نہ دئیے جائيں کيونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:”اے بنو ہاشم بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر لوگوں کا دھوون، ان کے اوساخ(یعنی ميل) حرام فرمائے ہيں اور تمہارے لئے اس کے بدلے غنيمت کا پانچواں حصہ مقرر فرمايا۔” بخلاف نفلی صدقات کے، کيونکہ مال زکوٰۃ کی صورت ميں اس پانی کی مثل ہے جوفرض ساقط ہونے سے ميلا ہوتا ہے، جبکہ نفلی صدقہ کا معاملہ پانی سے ٹھنڈک حاصل کرنے کے مقام ميں ہے۔ “(الهداية في شرح بداية المبتدی، کتاب الزکاۃ، ج 01، ص 112، دار احياء التراث العربي، بیروت)
مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ مرآۃ المناجیح میں اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:”خیال رہے کہ غنی اور سید کو صدقہ نفل لینا جائز ہے وہ صدقہ ان کے لیے ہدیہ بن جاتا ہے ۔“
(مرآۃ المناجیح، کتاب الزکاۃ، ج 03، ص 47، ضیاء القرآن، لاہور)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ
29 ربیع الاول 5144 ھ16 اکتوبر 2023 ء