نکاح میں ولدیت تبدیل کرنے سے نکاح کا حکم
سوال: کسی نے لڑکی گود لی تھی اب نکاح میں اس کی اصل ولدیت کے بجائے اپنا نام لکھوائے اور بلوائے تو نکاح کا کیا حکم ہے؟
User ID:سلطان وسیم انصاری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
اس بارے میں حکم شرع یہ ہے کہ بچے کے حقیقی باپ کی جگہ کسی اور کا نام لکھوانا ناجائز و حرام ہے کیونکہ بچوں کو ان کے حقیقی باپ کے نام سے پکارنے کا حکم ہے۔ البتہ نکاح میں ولدیت تبدیل کرنے سے گواہوں کے سامنے اگر لڑکی کی تعیین ہو جائے تو نکاح منعقد ہو جائے گا اور اگر لڑکی کی تعیین نہ ہوئی تو نکاح منعقد نہیں ہو گا۔اللہ رب العزت فرماتا ہے:﴿ اُدْعُوۡہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنۡدَ اللہِ ۚترجمۂ کنز الایمان :”انہیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو ۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے۔ (القرآن،پارہ21،سورۃالاحزاب،آیت5)
بہار شریعت میں ہے: یہ امر بھی ضروری ہے کہ منکوحہ گواہوں کو معلوم ہو جائے یعنی یہ کہ فلاں عورت سے نکاح ہوتا ہے، اس کے دو۲ طریقے ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر وہ مجلسِ عقد میں موجود ہے توا س کی طرف نکاح پڑھانے والا اشارہ کر کے کہے کہ میں نے اِس کو تیرے نکاح میں دیا اس صورت میں اگر اُس کے یا اُس کے باپ دادا کے نام میں غلطی بھی ہو جائے تو کچھ حرج نہیں ، کہ اشارہ کے بعد اب کسی نام وغیرہ کی ضرورت نہیں اور اشارے کی تعیین کے مقابل کوئی تعیین نہیں . دوسری صورت معلوم کرنے کی یہ ہے کہ عورت اور اُس کے باپ اور دادا کے نام لیے جائیں ۔ کہ فلانہ بنت فلاں بن فلاں اور اگر صرف اُسی کے نام لینے سے گواہوں کو معلوم ہو جائے کہ فلانی عورت سے نکاح ہوا تو باپ دادا کے نام لینے کی ضرورت نہیں۔
(بہارشریعت،جلد2،حصہ7،صفحہ17،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ
15جمادی الاولی 5144 /1 دسمبر 2023 ء