مسجد میں مانگنے اور دینے کا حکم
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ مسجد میں اگر کوئی اپنی ذات کے لیے سوال کرے اور اسے مسجد میں پیسے دیں تو پیسے مانگنے اور دینے والے کے متعلق کیا حکم ہے؟
User ID:شہزادہ محمد امین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
پوچھی گئی صورت میں حکم شرع یہ ہے کہ عین مسجد میں اپنی ذات کے لیے سوال کرنا ناجائز و حرام ہے اور فنائے مسجد میں بھی ممنوع ہے لہذا عین مسجد میں مانگنے والا اگر مستحق ہو تو اسے مسجد میں پیسے دینے کیa اجازت نہیں بلکہ مسجد کے باہر جا کر پیسے دئیے جائیں اور مانگنے والے کو سمجھایا جائے تاکہ وہ مسجد میں پیسے مانگنے سے باز رہے اور مستحق نہیں ہے تو مطلقا اسے پیسے دینا جائز نہیں کہ پیشہ ور بھکاریوں کو دینا جائز نہیں ۔ در مختار میں ہے : ”ویحرم فیہ السوال ویکرہ الاعطاءمطلقا“ ترجمہ : ” مسجد میں ( اپنے لیے ) سوال کرنا حرام ہے اور اسے دینا بھی مکروہ ہے،مطلقاً۔ “ (در مختار مع ردالمحتار ، جلد 2، صفحہ 523، مطبوعہ پشاور)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”جو ( سائل ) مسجد میں غل مچادیتے ہیں، نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالتے ہیں، لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے صفوں میں پھرتے ہیں، (ان کا مانگنا)مطلقاً حرام ہے، اپنے لیے، خواہ دوسرے کے لیے،۔۔ اور اگر یہ باتیں نہ ہوں، جب بھی اپنے لیے مسجد میں بھیک مانگنا منع ہے۔ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں: ”من سمع رجلا ینشد فی المسجد ضالة فلیقل لا ردھا ﷲالیک، فان المساجد لم تبن لھذا،“۔۔جب اتنی بات منع ہے، تو بھیک مانگنی، خصوصاً اکثر بلا ضرورت بطور پیشہ کے خود ہی حرام ہے، یہ کیونکر جائز ہوسکتی ہے۔ “ (ملخصاً از فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 401،402، رضا فاونڈیشن، لاھور)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ
11ربیع الثانی 5144 ھ27 اکتوبر 2023 ء