طلاق کو کسی کام پر معلق کرنے کا حکم

طلاق کو کسی کام پر معلق کرنے کا حکم

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے فلاں کام کیا تو میری بیوی کو طلاق ہے پھر اس سے وہ کام ہو جائے تو کیا بیوی کو طلاق ہو جائے گی؟

User ID:عزیز اللہ مروت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

پوچھی گئی صورت میں حکم شرع یہ ہے کہ طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنا شریعت مطہرہ کی اصطلاح میں تعلیق طلاق کہلاتا ہے اور تعلیقِ طلاق کا حکم یہ ہے کہ جس کام پر طلاق کو معلق کیا جائے وہ کام ہوتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی ، پوچھی گئی صورت میں رجوع کے لیے عدت کے اندر اندر رجوع کر لیا(یعنی زبان سے کہہ دیا کہ میں نے تمہیں نکاح میں واپس لیا) تو رجوع ہو جائے گا دوبارہ نکاح کرنا لازمی نہیں ۔کسی شرط پر معلق طلاق شرط پائے جانے کے بعد واقع ہوجاتی ہے۔چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے:’’اذا اضافہ الی شرط وقع عقیب الشرط مثل ان یقول لامراتہ ان دخلت الدار فانت طالق‘‘جب طلاق کو کسی شرط کی طرف مضاف کیا ،تو شرط پائے جانے کے بعد طلاق واقع ہو جائے گی، جیسے مرد اپنی عورت سے کہے کہ اگر تو گھر میں داخل ہوئی ،تو تجھے طلاق۔ (ھدایہ مع نصب الرایہ،ج3،ص324،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

عالمگیری میں ہے:’’واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقۃ رجعیۃ او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا رضیت بذلک او لم ترض‘‘جب مرد اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق رجعی دے دے ،تو اسے اختیار ہے کہ اس کی عدت میں رجوع کرلے،عورت اس پرر اضی ہو یا نہ ہو۔

(عالمگیری ،ج1،ص470 ،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ

15ربیع الثانی 5144 ھ31 اکتوبر 2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں