سوال:ایک دوکاندار کو ایک لاکھ روپے دیے اور فکس کر لیاکہ ماہانہ 10 ہزار مجھے ملتا رہے گا کیا یہ صورت سود کی ہے؟
یوزر آئی ڈی:اسد جٹ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
پوچھی گئی صورت میں فکس نفع لینا ناجائز و حرام ہے کہ یہ سود ہے اور شرکت فاسدہ ہے۔شلبی میں ہے: ” وإذا شرط فی المضاربة ربح عشرة أو في الشركة تبطل لا لأنه شرط فاسد بل لأنه شرط ينتفی به الشركة “ترجمہ: مضاربت یا شرکت میں دس (دراہم) نفع طے کر لیا گیا، تو عقد باطل ہو گا، اس لیے نہیں کہ یہ شرط فاسد ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ ایسی شرط ہے جس کی وجہ سے شرکت ہی ختم ہو رہی ہے۔
(شلبی علی التبيين ، جلد3، صفحہ 320، دار الکتاب الاسلامی)
امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃلکھتے ہیں :”اور یہ کہ دس فیصدی یا آنہ روپیہ دینا، اگر اس سے مراد ہے کہ جتنے روپے اس کو تجارت کے لیے دئے ہیں، ان پر فیصدی دس یا فی روپیہ ایک آنہ مانگتا ہے، تو حرام قطعی اور سود ہے،اور اگر یہ مراد کہ جو نفع ہواس میں سے دسواں یا سولھواں حصہ دینا ، تو یہ حلال ہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 19، ص 151، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبہ
انتظار حسین مدنی کشمیری
25ذو الحجۃ الحرام 1444ھ/14جولائی 2023 ء