سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس بارے میں کہ وراثت لینے والا اپنا حق بھائی کیلئے چھوڑ سکتا ہے، یہ کہہ کر کہ مجھے ضرورت نہیں ، تم رکھ لو۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ وراثت ان بچوں میں جو کہ بچپن میں ہی کسی چچا وغیرہ کو دے دئے گئے ہوں، اور وہ ہوں بھی بہت مالدار، انکو وراثت کا حصہ دینا ضروری ہے ؟ جبکہ چچا کی کوئی اولاد نہ تھی اور انہوں نے پہلے ہی اپنی تمام جائیداد اس بچے / بچی کے نام کردی ہے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
صورت مسئولہ کے مطابق اس طرح کوئی بھی وارث اپنی وراثت سے یوں ہی دستبردار نہیں ہوسکتا وراثت اللہ عزوجل کی طرف سے مقرر کردہ جبری و لازمی حق ہے۔وارث،مُورِث کے فوت ہوتے ہی اس حق وحصۂ شرعی کا مالک ہو جاتا ہے اور یہ ملکیت معاف کرنے سے ساقط نہیں ہو سکتی، اگرچہ وارث (بھائی وغیرہ دوسرے بھائی کے لیے یا بہن)اپنی خوشی سے معاف کر دےیا کہہ دے کہ مجھے وراثت میں سے اپنا حصہ نہیں چاہیے،اس کی یہ بات قابل قبول نہیں اس کو لازما اس کا حصہ دیا جائےگا ۔
البتہ شرعی طریقہ کار کے مطابق وراثت کی تقسیم کرنے اور اپنے حصہ پر قبضہ کر لینے کے بعد اگر کوئی وارث اپنا حصہ کسی کو ہبہ (گفٹ) کرنا چاہے، تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ جیسے ہبہ کرنا چاہتا ہے اسے اس پر کامل قبضہ دے دیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وارث تقسیم ترکہ سے پہلے اموال ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر اپنے حصہ سے دستبردار ہوجائے اب وہ چیز چاہے اس کے حصہ سے کم ہو یا زیادہ مگر اس کے لیے تمام ورثاء کا عاقل بالغ ہونا ضروری ہے اور وہ اس پر راضی بھی ہو اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو اب یہ چیز لے کر الگ نہیں ہوسکتا ۔
ایک تیسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنا حصہ کسی دوسرے وارث کو بیچ دے۔
صورت مسئولہ ثانی کے مطابق کسی کو اپنی اولاد دے دینے سے وہ اس لینے والے کی نہیں ہوجاتی اس کا نسب والد سے ہی ثابت ہوتا ہے اور اس کو اپنے والد کی وراثت سے ہی حصہ ملے گا کیونکہ وراثت اللہ عزوجل کی طرف سے مقرر کردہ جبری و لازمی ہے ۔لہذا پالنے والا اپنی جائیداد اس گود لیے ہوئے بچے کو دے بھی دے تب بھی وہ بچہ اپنے حقیقی والد کی جائیداد میں حصہ دار ہوگا۔
اشباہ الاشباہ والنظائر میں ہے
” لو قال الوارث تركت حقی لم يبطل حقه اذ الملك لا يبطل بالترک“
ترجمہ: یعنی اگر وارث نے کہا کہ میں نے اپنا حق چھوڑ دیا، تو اس کا حق باطل نہیں ہوگا ،کیونکہ ملکیت چھوڑ دینے سے باطل نہیں ہوتی۔‘‘(الاشباہ والنظائر ، الفن الثالث ، جلد1،صفحہ309، مطبوعہ دار الفکر بیروت)
غمزعیون البصائر میں ہے
”اعلم أن الاعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه ان كان ملكاً لازماً لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما:تركت نصيبی من الميراث،لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك“
ترجمہ “جان لو کہ ملکیت یا حق ِ ملکیت سے اعراض کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر وہ لازم ملکیت ہو، تو اعراض کرنے سے وہ باطل نہیں ہو گی، جیسے اگر کوئی شخص دو بیٹے چھوڑ کر فوت ہو، تو ان دونوں بیٹوں میں سے ایک کہے:میں نے میراث میں سے اپنا حصہ چھوڑ دیا ، تو اس کا حصہ باطل نہیں ہوگا، کیونکہ وہ ایسا لازم حق ہے جو چھوڑ دینے سے ترک نہیں ہوتا۔(غمز عیون البصائر، جلد 2،صفحہ388،389،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ،کراچی)
فتویٰ رضویہ میں ہے :
”میراث حقِ مقرر فرمودہ ِرب العزۃ جل وعلا ہے ، جو خود لینے والے کے اسقاط سے ساقط نہیں ہوسکتا، بلکہ جبراً دلایا جائے گا، اگرچہ وہ لاکھ کہتا رہے مجھے اپنی وراثت منظور نہیں، میں حصہ کا مالک نہیں بنتا، میں نے اپنا حق ساقط کیا ، پھردوسرا کیوں کر ساقط کرسکتا ہے؟“(فتاوی رضویہ،جلد 18،صفحہ168،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
فتویٰ رضویہ میں ہے :
”ترکۂ متوفیٰ سے دستبردار ہونا ہرگز معتبر نہیں اور وہ اس وجہ سے زنہار کالعدم(ہرگز معدوم) نہیں ہوسکتا، اگر چہ لاکھ بار دستبرداری کرلے،شرع تسلیم (قبول)نہ فرمائے گی اور اسے اس کے حصہ کا مالک ٹھہرائے گی ،ہاں اگر اسے لینا منظور نہیں، تو یوں کرے کہ لے کر اپنی بہن خواہ بھاوج خواہ جسے چاہے ہبہ کامل کردے اور جو مال قابلِ تقسیم ہو اسے منقسم کرکے قبضہ دلادے اس وقت البتہ اس کا حق منتقل ہوجائے گا ،ورنہ مجرد دستبرداری کچھ بکار آمد(کسی کام کی) نہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ ،جلد26،صفحہ133 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
تنویر الابصار و در مختارمیں ہے
’’( وتتم ) الهبة ( بالقبض ) الكامل“
ترجمہ:‘یعنی ہبہ کامل قبضے سے مکمل ہوتا ہے۔ (تنویر الابصار و الدر المختار ،جلد 8،صفحہ573 مطبوعہ،کوئٹہ)
بہارِشریعت میں ہے:
”اس (تخارج)سے مرادیہ ہے کہ وارثوں میں کوئی یاقرض خواہوں میں سے کوئی تقسیم ترکہ سے پہلے میت کے مال میں سے کسی معین چیزکولیناچاہے اوراس کے عوض اپنے حق سے دستبردارہوجائے، خواہ وہ حق اس چیزسے زائدہویاکم اوراس پرتمام ورثہ یاقرض خواہ متفق ہوجائیں ،تواس کانام فقہ کی اصطلاح میں’’تخارج‘‘ یا ’’تصالح‘‘ہے۔“(بہار شریعت،جلد3،صفحہ1151، مطبوعہ مکتبۃالمدینہ،کراچی)
فتویٰ رضویہ میں ہے :
”پسرخواندہ نہ چنیں کس راپسرمی شود نہ خود بے علاقہ ازپدر ان الحقائق لاتغیّر،شرعاً وارث پدر ست نہاینکس دیگر۔
ترجمہ “منہ بولا بیٹا نہ ایسے شخص کا بیٹا ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے باپ سے بے تعلق کیونکہ حقیقتوں میں تغیر نہیں ہوتا،شرعی طور پر وہ اپنے باپ کا وارث ہے نہ کہ اس دوسرے شخص کا جس نے اس کو منہ بولا بیٹا بنایا ہے۔“(فتاویٰ رضویہ،جلد26،صفحہ178،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
فتاویٰ امجدیہ میں ہے :
”تبَنی کرنا یعنی لڑکا گود لینا شرعاً منع نہیں،مگر وہ لڑکا اس کا لڑکا نہ ہوگا بلکہ اپنے باپ ہی کا کہلائے گا اور وہ اپنے باپ کا ترکہ پائے گا۔گود لینے والے کا نہ یہ بیٹا ہے نہ اِس حیثیت سے اس کا وارث،ہاں اگر وارث ہونے کی بھی اس میں حیثیت موجود ہے مثلاً بھتیجا کو گود لیا تو یہ وارث ہو سکتا ہے جبکہ کوئی اور مانع نہ ہو۔“(فتاوی
امجدیہ،جلد3،صفحہ365،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)
واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــہ
16ذوالحجہ 1444ھ 05 جولائی2023ء