کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ اسلام میں مشت زنی (Masturbation) کا کیا حکم ہے، کیا ایک نوجوان جب تک اس کی شادی نہیں ہوتی مشت زنی کر سکتا ہے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
اللہ cنے بندے کی ضرورت کو پوری کرنے کے لیے دو جائز طریقے مقرر کیے ہیں: (١) بیوی اور(٢) کنیز یعنی شرعی باندی۔ ان دو کے علاوہ کسی اور طریقہ سے شہوت پوری کرنے کو سرکشی قرار دیا۔ اس میں مشت زنی (Masturbation) کرنا بھی داخل ہے، لہذا مشت زنی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، حدیث پاک میں اس فعل کے مرتکب کو ملعون کہا گیا ہے، لہذا اس فعلِ بد سے مکمل اجتناب کرنا لازم ہے۔
اگر کسی شخص کو شیطان بار بار بہکائے اور اسے بہت وسوسے آئیں تو اسے چاہیئے کہ کثرت سے توبہ و استغفار کرے اور کثرے سے روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو کاٹتا ہے، نیز اچھی صحبت اپنائے، بری صحبتوں سے اور جنسی ہیجان پیدا کرنے والی محفلوں سے خود کو بچا کر رکھے۔ اس کے علاوہ نمازِ باجماعت کی پابندی کے ساتھ ”لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم“ کی کثرت کرے۔
البتہ! اگر کسی غیر شادی شدہ شخص پر اتنا زیادہ شہوت کا غلبہ ہے کہ لوگوں کے پاس بیٹھنے یا کسی کام کی طرف دھیان لگانے، غرض کسی تدبیر سے جوش کم نہیں ہو پاتا، اور اس کی وجہ سے اسے زنا کاری میں پڑنے کا قوی اندیشہ یا یقین ہو اور اس میں نکاح کرنے کی استطاعت بھی نہیں تو اس شدید حاجت کے وقت صرف شہوت توڑنے کی غرض سے مشت زنی منع نہیں ہے تاکہ زنا وغیرہ سے خود کو بچا سکے۔ لیکن پھر بشرطِ استطاعت اس کو نکاح کی تدبیر کرنی لازم ہے، نہ یہ کہ اس عمل بد کی عادت بنالے ۔
چنانچہ قرآن پاک اللہ c کا فرمان ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ (۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ(۶)﴾ترجمہ کنزالایمان:اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی ملک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں۔
(پارہ نمبر 18،سورۃ المؤمنون 23،آیت نمبر 5-6)
پھراگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ (۷)﴾ ترجمہ کنزا لایمان : تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔
(پارہ نمبر 18،سورۃ المؤمنون 23،آیت نمبر 7)
علامہ ابو البركات عبد الله بن احمد النسفی �(المتوفی:710ھ/ت1310ء) تفسیر مدارک میں لکھتے ہیں: ”وفيه دليل تحريم المتعة والاستمتاع بالكف لإرادة الشهوة“ ترجمہ: اس آیت میں متعہ اور مشت زنی کی شہوت کے ارادے کے ساتھ حرام ہونے کی دلیل ہے۔
(مدارك التنزيل وحقائق التأويل ،جلد نمبر2 ، صفحہ نمبر 460، مطبوعه: دار الكلم الطيب، بيروت)
شیخ ابو الفداء اسماعيل بن عمر بن كثير بصری (المتوفى: 774ھ) مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”وقد استدل الإمام الشافعي، رحمه الله، ومن وافقه على تحريم الاستمناء باليد بهذه الآية الكريمة { وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ (۵)اِلَّا عَلٰۤى
اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ(۶) } قال: فهذا الصنيع خارج عن هذين القسمين، وقد قال: {فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ (۷) } وقد استأنسوا بحديث رواه الإمام الحسن بن عرفة في جزئه المشهور حيث قال:حدثني علي بن ثابت الجزري، عن مسلمة بن جعفر، عن حسان بن حميد ، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: سبعة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولا يجمعهم مع العاملين، ويدخلهم النار أول الداخلين، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: ناكح يده“یعنی: ان آیات سے مشت زنی کے حرام ہونے کا امام شافعی اور ان کے ساتھ موافقت کرنے والوں نے استدلال کیا ہے اور فرمایا کہ یہ قبیح فعل ان حلال قسموں (بیوی اور شرعی باندی) سے خارج ہے، اور دیگر علما نے اس حدیث سے جو امام حسن بن عرفہ نے روایت کی کہ حضرت انس �سے مروی ہے نبی پاک ﷺ نے فرمایا: سات افراد ہیں، جن کی طرف اللہ cقیا مت والے دن نظر رحمت نہ فرمائے گا، اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ انہیں عالمین کے ساتھ جمع کرے گا اور انہیں سب سے اول دوزخ میں ڈالے گا۔ ہاں اگر وہ (موت سے قبل ) توبہ کرلیں تو اللہ c ان کی توبہ قبول فرمانے والا ہے ۔(ان میں سے ایک) ہاتھ سے نکاح کرنے والا (یعنی مشت زنی کرنے والا) ہے ۔
(تفسیر ابن کثیر ،جلد نمبر 5،صفحہ نمبر 463، مطبوعہ: دار طيبة للنشر والتوزيع)
علامہ شہاب الدين محمود بن عبد الله حسينی آلوسی � (المتوفی: 1270ھ) روح المعانی میں مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں: ”فجمهور الأئمة على تحريمه وهو عندهم داخل فيما وراء ذلك، وكان أحمد بن حنبل يجيزه لأن المني فضلة في البدن فجاز إخراجها عند الحاجة كالفصد والحجامة … وعن سعيد بن جبير: عذب الله تعالى أمة كانوا يعبثون بمذاكيرهم، وعن عطاء: سمعت قوما يحشرون وأيديهم حبالى وأظن أنهم الذين يستمنون بأيديهم والله تعالى أعلم“یعنی: جمہور آئمہ نے اس آیت سے مراد مشت زنی کی حرمت لی ہے، کہ وہ بھی ﴿وَرَآءَ ذٰلِكَ﴾ میں داخل ہے ۔ امام احمد بن حنبل �نے مشت زنی کو (حاجت کے وقت) جائز کیا کہ منی جسم کا فاضل مادہ ہے تو اسے حاجت کے وقت نکالنا جائز ہے، جیسے حاجت کے وقت پچھنا لگوانا اور حجامت کروانا جائز ہے، اور سعید بن جبیر نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک امت کو عذاب کیا جو اپنی شرمگاہوں سے کھیلتے تھے۔اور حضرت عطا ء فرماتے ہیں: میں نے ایک قوم کے بارے میں سنا ہے کہ حشر میں انکی ہتھیلیاں گابھن (حاملہ ) ہوں گی اور میرا گمان ہے کہ وہ مشت زنی کرنے والے ہوں گے۔
(روح المعانی ،جلد نمبر9،صفحہ نمبر 214، مطبوعه: دار الكتب العلمية بيروت )
صدر الافاضل بدر الاماثل مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی � (المتوفی: 1367ھ/1948ء) اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”معلو م ہو اکہ ہاتھ سے قضائے شہوت(مشت زنی) کرنا حرام ہے۔ سعید بن جبیر �نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک امت کو عذاب کیا جو اپنی شرمگاہوں سے کھیل کرتے تھے۔“
(خزائن العرفان، سورۃ المؤمنون 23، تحت آیت 7، صفحہ نمبر 234، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)
شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان� (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”یہ فعل (مشت زنی) ناپاک حرام وناجائز ہے، اللہ جل وعلا نے اس حاجت کے پورا کرنے کو صرف زوجہ و کنیز شرعی بتائی ہیں اور صاف ارشاد فرمادیا ہے کہ : ﴿ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ﴾جو اس کے سو ااور کوئی طریقہ ڈھونڈھے توو ہی لوگ ہیں حد سے بڑھنے والے۔ (سورۃ المؤمنون 23،آیت نمبر 7) حدیث میں ہے : ناکح الید ملعون (ترجمہ:)جلق لگانے والے پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص جوان تیز خواہش ہو کہ نہ زوجہ رکھتاہو نہ شرعی کنیز اور جوش شہوت سخت مجبور کرے اوراس وقت کسی کام میں مشغول ہوجانے یا مردوں کے پاس جابیٹھنے سے بھی دل نہ بٹے غرض کسی طرح وہ جوش کم نہ ہو یہاں تک کہ یقین یاظن غالب ہوجائے کہ اس وقت اگر یہ فعل نہیں کرتا تو حرام (زنا) میں گرفتار ہوجائے گا، تو ایسی حالت میں زنا ولواطت سے بچنے کے لئے صرف بغرض تسکین شہوت نہ کہ بقصد تحصیل لذت و قضائے شہوت اگر یہ فعل واقع ہو تو امید کی جاتی ہےکہ اللہ تعالی مواخذہ نہ فرمائے گا۔ پھر اس کے ساتھ ہی واجب ہے کہ اگر قدرت رکھتا ہو فورا نکاح یا خریداری کنیز شرعی کی فکر کرے ورنہ سخت گنہگار ومستحق لعنت ہوگا۔ یہ اجازت اس لئے نہ تھی کہ اس فعل ناپاک کی عادت ڈال لے اور بجائے طریقہ پسندیدہ خدا ورسول اسی پر قناعت کرے۔
(فتاوی رضویہ،جلد نمبر 22،صفحہ نمبر 202، رضا فاؤنڈیشن لاہور )
اس کے بعد طریقۂ محمدیہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اما الاستمناء فحرام الا عند شروط ثلثۃ ان یکون عزبا وبہ شبق و فرط شہوۃ (بحیث لو لم یفعل ذلک لحملتہ شدۃ الشھوۃ علی الزنا او اللواط والشرط الثالث ان یرید بہ تسکین الشھوۃ لاقضاء ھا مزید ا من شرحھا الحدیقۃ الندیۃ“ ترجمہ: مشت زنی حرام ہے، مگر تین شرائط کے ساتھ جواز کی گنجائش ہے: (1) کنوارہ ہو اور غلبہ شہوت ہو (2) شہوت اس قدر غالب ہو کہ بدکاری ،زنا،یا لونڈے بازی وغیرہ کا اندیشہ ہو (3) تیسری شرط یہ ہے کہ اس سے محض تسکین شہوت مقصود ہو نہ کہ حصول لذت ۔طریقہ محمدیہ کی عبارت مکمل ہوگئی، جس میں اس کی شرح حدیقہ ندیہ سے کچھ اضافہ بھی شامل ہے ۔
(فتاوی رضویہ،جلد نمبر 22،صفحہ نمبر 202-203، رضا فاؤنڈیشن لاہور )
اگر زنا کا خوف نہیں تو شہوت کو ذکر اذکار یا روزوں سے توڑ ا جائے، چنانچہ فقیہ اعظم � کی تحریر فرماتے ہیں: ”وہ(مشت زنی کرنے والا)گناہ گار ہے ، عاصی ہے اصرار کے کے سبب مرتکب کبیرہ ہے ، فاسق ہے ، حشر میں ایسوں کی ( یعنی مشت زنی کرنے والو ں کی ) ہتھیلیاں گابھن (حاملہ) اٹھیں گی، جس سے مجمع اعظم اس کی رسوائی ہو گی، اگر توبہ نہ کریں تو اور اللہ عزوجل معاف فر ماتا ہے جسے چاہے اور عذاب دیتا ہے جسے چاہے(اس کا علاج یہ ہے کہ جس کو اس فعل بد کی خواہش ہو) اسے چاہیے کہ لا حول شریف کی کثرت کرے اور جب شیطان اس حرکت کی طرف بلائے تو فورا ً دل سے متوجہ بخدا عزوجل ہو کر لا حول پڑھے نماز پنجگانہ کی پابندی کرے، نماز صبح کے بعد سورۂ اخلاص کا ورد رکھے۔ واﷲ تعالٰی اعلم “
(فتاوی رضویہ جلد نمبر 22، صفحه نمبر244، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبــــــــــــــــــــــــــــہ
مولانا احمد رضا عطاری حنفی
21 شوال المکرم 1444ھ / 12 مئی 2023ء