کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت پر غسل جنابت لازم تھا،ابھی غسل نہیں کیا تھا کہ حیض شروع ہوگیا،اب کیا وہ ابھی غسل جنابت کرے گی یا حیض کے بعد والا غسل کافی ہوگا؟ اگر ایک ہی غسل کفایت کرے گا تو حائضہ کے بارے میں ہے کہ وہ پانی میں ہاتھ بغیر قربت کی نیت کے ڈالے تو پانی مستعمل نہ ہوگاجبکہ جنبی کے بارے میں ہے کہ وہ ہاتھ ڈالے گا تو پانی مستعمل ہوجائے گا،اب اس صورت میں یہ عورت اگر پانی میں ہاتھ ڈالے گی تو کیا پانی مستعمل ہوجائے گا یا حیض کا لحاظ کرتے ہوئے مستعمل نہ ہونے کا حکم دیا جائے گا؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
جس عور ت پر غسل فرض ہو اور اسے حیض بھی آجائے تو اس کے لیے حیض ختم ہونے کےبعد ایک ہی غسل کفایت کر جائے گا۔ اگر جنابت کے بعد حیض شروع ہوا اور ہاتھ پرنجاست نہ ہو اور اسے دھوئے بغیر برتن میں ڈالا تو پانی مستعمل ہوجائے گا۔ کیونکہ حیض جنابت کے غسل کو ختم نہیں کرتابلکہ اس کو مؤخر کردیتا ہے کہ غسل میں تاخیر کرنا اس عورت کے لیے جائز ہوتا ہے۔لیکن جنابت کاحکم اس کے ساتھ وابستہ ہوگا اور پانی مستعمل ہوجائے گا۔جب حیض کے بعد یہ غسل کرے گی تو یہ غسل دونوں کی طرف سے ادا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ اگر کسی عورت نے قسم کھائی کہ وہ جنابت سے غسل نہیں کرے گی ،تواس کے شوہر نے اس سے صحبت کی اور غسل جنابت سے قبل وہ عورت حائضہ ہوگی اور بعد میں اس نے غسل کیا تو یہ غسل دونوں کی طرف سے ہوگا اور اس کی قسم ٹوٹ جائے گی۔
غنیۃ المستملی میں ہے
” ویکفی غسل واحد للعید والجمعۃ اذا اجتمعا کما یکفی لفرضی جماع وحیض“
ترجمہ:جب عید اور جمعہ اکٹھے ہوجائیں تو ایک ہی غسل کافی ہے جیسا کہ جماع اور حیض سے دوفرض غسل جمع ہو جائیں تو ایک ہی غسل کافی ہوتا ہے ۔ (غنیۃ المستملی ، باب فرائض الغسل ، صفحہ 48، مکتبہ نعمانیہ ، کوئٹہ )
مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں :
”عورت جنب ہوئی اور ابھی غسل نہیں کیا تھا کہ حیض شروع ہو گیا تو چاہے اب نہا لے یا بعد حیض ختم ہونے کے ۔ “(بہار شریعت ،جلد1،صفحہ325، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
”کسی حدثِ اکبر یا اصغر والے کا ہاتھ بغیر دھوئے جب کسی دَہ در دَہ پانی سے کم میں پڑ جائے گا، اُس سب کو قابلِ وضو وغسل نہ رکھے گا اور اگر ہاتھ دھو لینے کے بعد پڑا تو کچھ حرج نہیں۔عورت حیض کی وجہ سے اُس وقت حدث والی ہوگی، جب حیض منقطع ہوجائے، اس سے پہلے نہ اُسے حدث ہے نہ حکمِ غسل، اُس کا ہاتھ پڑنے سے قابلِ وضو وغسل رہے گا ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔“(فتاویٰ رضویہ،جلد3،صفحہ254،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
البحر الرائق میں ہے
”لو حلفت لا تغتسل من جنابة أو حيض فجامعها زوجها وحاضت فاغتسلت فهو منهما وتحنث، وهذا ظاهر الرواية “
ترجمہ:اگر عورت نے قسم کھائی کہ وہ جنابت یا حیض سے غسل نہیں کرے گی۔پھر اس کے شوہر نے اس سے صحبت کی اور وہ حائضہ ہوگئی ،پھر اس نے غسل کیا تو وہ غسل دونوں کی طرف سے ہوگا اور وہ عورت حانث ہوجائے گی اور یہ ظاہرالروایہ ہے۔( البحر الرائق شرح كنز الدقائق، كتاب الطهارة ، موجبات الغسل ،جلد1،صفحہ65،دار الكتاب الإسلامي)
ردالمحتار میں ہے
”(قوله اجتمع حدثان فالطهارة منهما) أي مطلقا كجنابتين من امرأتين أو جنابة وحيض أو بول ورعاف. قال في البحر: فلو حلف لا يغتسل من امرأته هذه فأصابها ثم أصاب أخرى أو بالعكس ثم اغتسل فهو منهما وحنث “
ترجمہ:صاحب درمختا ر کا یہ قول کہ جب دو حدث جمع ہوجائیں تو طہارت دونوں کی طرف سے ہوگی یعنی مطلقا ہوگی جیسے دو عورتوں سے صحبت کے بعد غسل کیا ہو یا جنابت اور حیض سے یا پیشاب اور نکسیر کے سبب طہارت کی ہو۔ بحرمیں فرمایا کہ اگر مرد نے قسم کھائی کہ وہ اِس عورت سے (صحبت کرنے کے بعد)غسل نہیں کرے گا،پھر اس عورت سے صحبت کی ،پھر دوسری سے صحبت کی یا اس کے برعکس کیا ،پھر غسل کیا تو یہ غسل دونوں کی طرف سے ہوگا اور بندہ حانث ہوجائے گی۔( رد المحتار على الدر المختار، كتاب الأيمان ، باب اليمين في البيع والشراء والصوم والصلاة وغيرها ،جلد3،صفحہ830، دار الفكر،بيروت)
واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــہ
ابواحمد مفتی محمد انس رضا قادری
27 ذوالقعدہ1444ھ17 جون 2023ء